Aurton Ka Bareek Lawn Ke Kapre Pehanna Kaisa?

عورتوں کا باریک لان کے کپڑے پہننا کیسا؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-6532

تاریخ اجراء:30شوال المکرم1441ھ22جون2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ آج کل مارکیٹ میں باریک لان کے کپڑےکثرت سے موجود ہیں خواتین یہ لان بڑے شوق سے پہنتی ہیں ، حالانکہ ان کے  باریک ہونے کی وجہ سے جسم کی رنگت ظاہر ہوتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ خواتین کا ایسا باریک لباس پہننا شرعا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    انسان کے لئے لباس اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ بہت بڑی نعمت ہے،کہ اس  کے ذریعے انسان پردہ اور زینت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر کئی فوائدبھی  حاصل کرتا ہے۔اس نعمت اور اس کے بعض فوائد کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔لہذا اسے خدا کا احسان سمجھتے  ہوئے چاہئے کہ اس رب کریم کے رحمت و برکت والے دین ،اسلام کی تعلیم کے مطابق ہی اسے استعمال کریں اور ہر اس انداز اور طریقے سے بچیں جو خدا کی مرضی کے خلاف ہے،مگر افسوس کہ آج کل معاشرے  میں جس طرح دیگر برائیاں دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہیں، وہیں لباس کے معاملے میں بھی فیشن یا معیار کے نام پہ شرعی احکام کونظر انداز کیا جا رہا ہے۔لباس یا تو پورے ستر کو ڈھانپنے والا ہی نہیں ہوتا،بلکہ بازو،سینہ،گردن وغیرہ کھلے ہوتے ہیں یا اتنا باریک ہوتا ہے کہ جس سے جسم کی رنگت جھلکتی ہے  یا اتنا تنگ اور چست ہوتا ہے کہ اس  سے نسوانی اعضاکے ابھار واضح طور پر محسوس ہوتے ہیں ۔حالانکہ لباس کے معاملے میں اسلامی اصول بہت واضح ہے اور وہ یہ کہ عورت کاچہرےکی ٹکلی،دونوں ہتھیلیوں اور دونوں قدموں کے علاوہ تمام بدن ستر میں داخل ہےیعنی عورت کے لئے غیر محرم کے سامنے بدن کے اتنے  حصے کو چھپانا ضروری ہے  اور فتنے کے خوف کی وجہ سےفی زمانہ عورت کوچہرے کےپردے کابھی حکم ہے۔لہذاعورت کا  لباس ایسا ہونا چاہئے  جو بدن کو اچھی طرح چھپا سکے اور ایسا لباس جو بدن کو نہ ڈھانپےیابظاہر بدن کو توڈھانپ لے،لیکن اتنا باریک ہو کہ جس سے بدن کی رنگت جھلکے یا باریک تو نہ ہو،لیکن اتنا چست اور تنگ ہو کہ جس سے اعضاکی ہیئت واضح طور پرمعلوم ہو،توایسا لباس (سوائے شوہر کے )غیر محرم کے سامنے مطلقاً اور کئی صورتوں میں محارم کے سامنے پہننا بھی ناجائز اورگناہ ہے،جیسے محارم کے سامنے سرین یا رانوں کی ہیئت واضح ہوکیونکہ یہ  لباس پردہ نہیں،بلکہ بے پردگی ہےاورایسا لباس پہننے والی عورتوں کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ یہ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھیں گی۔

    اوربالخصوص وہ لباس جس سے اعضائے ستر(بدن کے وہ اعضاجنہیں چھپانے کا حکم ہے)مکمل چھپے ہوئے نہ ہوں یا بظاہر چھپے تو ہوں،لیکن کپڑا باریک ہونے کی وجہ سے جسم کی رنگت ظاہر ہو رہی ہو،توایسےلباس کی ایک بہت بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ اسے پہن کر اگر عورت نماز پڑھے اور اعضائے ستر میں سے کسی عضو کا چوتھائی حصہ ظاہر ہو تو نماز نہیں ہوگی،اگرچہ وہ تنہائی میں ہی نماز پڑھے،کیونکہ نماز کے لئے چھپانے کے حکم میں داخل حصہ ِ بدن چھپاناشرط ہے اور ان اعضامیں سے کسی عضو کا چوتھائی حصہ کھلا ہویا کپڑا باریک ہونے کی وجہ سے اس عضو کی رنگت ظاہر ہورہی ہو، تو ایسی حالت میں نماز شروع ہی  نہیں ہوتی ،بلکہ ذمہ پر باقی رہتی ہے، اس طرح اگر ہزار نمازیں بھی ادا کی ہوں ،توان سب کو دوبارہ ادا کرنا فرض ہے۔پس اس بات سے بھی بخوبی اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ جو لباس دیگر خرابیوں کے ساتھ اللہ عزوجل  کے حق کو پورا کرنے( نمازکی ادائیگی) میں بھی رکاوٹ بنتا ہو، وہ کس قدر بُرا لباس ہے؟ لہذاعورت کانماز اور اس کے علاوہ بھی  باریک لان (جس سے بدن چمکے)یاایسا کوئی بھی کپڑا پہننا ،ناجائز و ممنوع ہے کہ  جس سے شرعی پردہ نہ ہو سکے۔

    پھر فیشن اور برانڈ کے نام پر ایسے لباس بنانےاور بے حیائی کے گھٹیا سے گھٹیا حیاسوز مناظر کے ساتھ ان کی تشہیر کرنے والی اور کروانے والی کمپنیوں خصوصاً ایسے اشتہار دکھانے والے چینلزکو بھی اپنے طرزِ عمل پہ خوب غور کرلینا چاہئے کہ وہ دانستہ یا نادانستہ طور پر کفاراور شیطان کی خواہش کے مطابق اسلامی احکام و تعلیمات کے خلاف شیطانی و شہوانی کلچر عام کر کےمسلمانوں میں بے حیائی ،عریانی اور بے پردگی کو فروغ دے رہے ہیں، حالانکہ ایسوں کے بارے میں قرآن پاک میں سخت وعید بیان کی گئی ہے ۔فرمانِ باری تعالی ہے:﴿ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین اٰمنوا لھم عذاب الیم فی الدنیا والاٰخرۃ﴾ترجمہ:بیشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ،ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔

             ( سورۃ النور،آیت19)

    اوربے حیائی پھیلانے کی مختلف صورتوں میں سے ایک حیاسے عاری لباس والے کلچر کو عام کرنا بھی ہے۔لہذا اس میں مبتلا افراد کو سوچنا چاہیے کہ وہ بروزِ قیامت اپنے رب  کو کیا منہ دکھائیں گے؟اورقرآن ِ کریم کےواضح احکام کے باوجوداس کلچر کو عام کرنے کا ان کے پاس کیاجواب ہو گا؟یقیناً وہ اس کا جواب نہیں دے پائیں گے۔

     لباس کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿یٰبنی اٰدم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواٰتکم وریشا﴾ترجمہ کنز العرفان:اے آدم کی اولاد!بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک لباس وہ اتارا جو تمہاری شرم کی چیزیں چھپاتا ہے اور (ایک لباس وہ جو)زیب و زینت ہے۔

     (پ 8،س الاعراف،آیت 26)

     اوربے پردگی سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:﴿ ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولیٰ﴾ترجمہ کنز العرفان :اور بے پردہ نہ رہو جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی ۔

 (پ 22، س الاحزاب،آیت33)

    اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:’’(ایک قول یہ ہے کہ )اگلی جاہلیت سے مراد اسلام سے پہلے کا زمانہ ہے،اس زمانے میں عورتیں اتراتی ہوئی نکلتی اور اپنی زینت اور محاسن کا اظہار کرتی تھیں ،تاکہ غیر مرد انہیں دیکھیں ،لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اعضا اچھی طرح نہ ڈھکیں ۔‘‘

        (تفسیر صراط الجنان  تحت ہذہ الاٰیہ،ج8،ص21،مطبوعہ،مکتبۃ المدینہ)

    اور شرعی پر دہ نہ کرنے والی عورتوں کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’صنفان من اهل النار لم ارهما: نساء كاسيات،عاريات، مميلات،مائلات، رءوسهن كاسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها وان ريحها ليوجد من  مسيرة كذا وكذا‘‘ترجمہ:دوزخیوں کی دو جماعتیں ایسی ہیں،جنہیں میں نے (اپنے زمانے میں) نہیں دیکھا۔(میرے بعد والے زمانے میں ہوں گی ۔ایک جماعت )ایسی عورتوں کی ہوگی  جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی،لیکن حقیقت میں بے لباس اور ننگی ہوں گی ،بے حیائی کی طرف دوسروں کو مائل کرنے اور خود مائل ہونے  والی ہوں گی،ان کے سر ایسے ہوں گے،جیسے بختی اونٹوں کی ڈھلکی ہو ئی کوہانیں ہوں،یہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو سونگھیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی  اتنی مسافت سے محسوس کی جائے گی ۔

(صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النساء الکاسیات ۔۔الخ،ج3،ص1680،مطبوعہ،بیروت )

    اس حدیثِ پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:’’يسترن بعض بدنهن ويكشفن بعضه اظهارا لجمالهن وابرازا لكمالهن وقيل: يلبسن ثوبا رقيقا يصف بدنهن وان كن كاسيات للثياب عاريات فی الحقيقة ‘‘ترجمہ:اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے  حسن وجمال اور بدن کےکمال کو ظاہر کرنے کی غرض سے کچھ بدن چھپا کر رکھیں گی اور کچھ بدن کھول کراور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ باریک کپڑے پہنیں گی،جس سے ان کا بدن جھلکے گا،اگرچہ یہ عورتیں بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی،لیکن حقیقت میں بے لباس اور ننگی ہوں گی۔

 (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،ج6،ص2302،مطبوعہ،دار الفکر ،بیروت)

    اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’عورت اگر نامحرم کے سامنے اس طرح آئے کہ اُس کے بال، گلے اور گردن یا پیٹھ یا کلائی یاپنڈلی کا کوئی حصہ ظاہر ہو یا لباس ایسا باریک ہو کہ ان چیزوں سے کوئی حصہ اُس میں سے چمکے،تو یہ بالاجماع حرام اور ایسی وضع ولباس کی عادی عورتیں فاسقات ہیں اوران کے شوہر اگر اس پر راضی ہوں یا حسبِ مقدور بندوبست نہ کریں، تو دیوث ہیں۔‘‘

 (فتاوی رضویہ،ج6، 509تا510،مطبوعہ،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

    مزید ایک مقام پہ ارشاد فرماتے ہیں:’’نہ (لباس) خوب چست بدن سے سلے ،کہ یہ سب وضع فساق ہےاورساترِعورت کا ایسا چست ہونا کہ عضو کا پورا انداز بتائے،یہ بھی ایک طرح کی بے ستری ہے۔‘‘

 (فتاوی رضویہ،ج22،ت162تا163،مطبوعہ،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

    اورصدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’بعض عورتیں بہت باریک کپڑے پہنتی ہیں مثلا آب رواں یا جالی یا باریک ململ ہی کا ڈوپٹا(دوپٹا)،جس سے سر کے بال یا بالوں کی سیاہی یا گردن یا کان نظر آتے ہیں ۔۔اس حالت میں(ان کی طرف) نظر کرنا حرام اور ایسے موقع پران کو اس قسم کے کپڑے پہننا بھی نا جائز۔‘‘

(بہار شریعت،ج3،ص448،مطبوعہ،مکتبۃ المدینہ)

    عورت کے لئے کن اعضاء کا پردہ ضروری ہے،اس بارے میں در مختار میں ہے:’’(وللحرۃ)۔۔(جمیع بدنھا)حتی شعرھا النازل فی الاصح(خلا الوجہ والکفین)۔۔(والقدمین۔۔(وتمنع)المرأۃ الشابۃ(من کشف الوجہ بین رجال)۔۔(لخوف الفتنۃ)‘‘ ترجمہ:چہرےکی ٹکلی،دونوں ہتھیلیوں اور دونوں قدموں کے علاوہ،آزاد عورت کا تمام بدن، حتی کہ لٹکے ہوئے بال بھی سترِ عورت ہیں۔۔اور فی زمانہ خوفِ فتنہ کی وجہ سے مردوں کے سامنےجوان عورت کو اپنا چہرہ ظاہر کرنا بھی  منع ہے۔

      (در مختار،ج1،ص405تا406،مطبوعہ،دار الفکر،بیروت)

    نماز میں سترِ عورت کے حوالے سے صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’سترِ عورت ہر حال میں واجب ہے،خواہ نماز میں ہو یا نہیں ۔۔اتنا باریک کپڑا جس سے بدن چمکتا ہو، ستر کے لئے کافی نہیں، اس سے نماز پڑھی تو نہ ہوئی۔ یونہی اگر چادر میں سے عورت کے بالوں کی سیاہی چمکے ،نماز نہ ہو گی۔ بعض لوگ باریک ساڑیاں اور تہبند باندھ کر نماز پڑھتے ہیں  کہ ران چمکتی ہے،ان کی نمازیں نہیں ہوتیں اور ایسا کپڑا پہننا جس سے ستر عورت نہ ہو سکے ،علاوہ نماز کے بھی حرام ہے۔۔اگر نماز شروع کرتے وقت عضو کی چوتھائی کھلی ہے،یعنی اسی حالت پر اللہ اکبر کہہ لیا ،تو نماز منعقد ہی نہ ہوئی۔‘‘

            (بہارِ شریعت،ج1،ص479تا482،مطبوعہ،مکتبۃ المدینہ)

    نوٹ:اس بارے میں مزید مفید معلومات حاصل کرنے کےلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب بنام’’پردے کے بارے میں سوال و جواب‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم