Bache Ki Paidaish Par Murawwaja Rasmo Ka Hukum

بچے کی پیدائش پر مروجہ رسموں کا حکم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2854

تاریخ اجراء: 01محرم الحرام1445 ھ/08جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   جب کوئی بچہ گھر میں پیدا ہوتا ہے،تو بڑے بوڑھوں  کی طرف سے جو رسمیں چلی آرہی ہوتی ہیں،ہمیں ان پر چلنے کا کہا جاتا ہے،جیسے  بچے کی پیدائش سے پہلے گود بھرائی کی رسم، ساتویں مہینے میں میٹھے چاول بنانا،اور پیدائش کے بعد چھٹی وغیرہ ،تو کیا ہمیں ان رسموں کی پیروی کرنا لازم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فی  زمانہ بچوں  کی  پیدا ئش  پر  کی جانے والی  رسمیں  جو بڑے بوڑھوں سے چلی آ رہی ہیں اور   شریعت کے مخالف نہیں  ،جیسا کہ گود بھرائی   ،  میٹھے چاول  بنانے،اور چھٹی وغیرہ کی رسمیں  کہ  فی نفسہ  اِن رسموں میں شرعاً    کوئی قباحت نہیں،تو ایسی رسمیں شرعاً جائز و مباح ہیں ، ان رسموں کی پیروی  کرنا  لازم تو   نہیں ،لیکن اگر کوئی پیروی کرلے تو شرعاً حرج بھی نہیں  ،بلکہ  ایسی  جائز رسمیں  جو لوگوں میں رائج  ہوں  اور شریعت کی طرف سے اس کی ممانعت بھی  نہ ہو،تو کسی ناجائز کام کے ارتکاب کے بغیر ایسی رسموں  کی پیروی کرلینی چاہئے  کہ شریعت لوگوں کے ساتھ میل  برتاؤ   پسند فرماتی ہے، اور بغیر کسی شرعی وجہ کے اُنہیں اپنے خلاف کرنے ،اور معاشرے میں   نفرت کی فضا قائم کرنے  سے  منع فرماتی ہے، البتہ کسی  جائز   رسم کی پیروی میں بھی   یہ ضرور خیال رہے کہ اس میں کوئی   ناجائز وحرام  کام شامل نہ ہونے پائے، جیسے اجنبی مرد و عورت کا  اختلاط،ناچ  گانے وغیرہ ،ورنہ اگر جائز رسموں میں  ناجائز و حرام امور شامل ہوں ،تواُن    رسموں کی پیروی  کرنا   شرعاً جائز نہیں ہوگا،بلکہ  اس  سے بچنا  لازم و ضروری  ہوگا۔

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں:’’ ہر ملک میں نئی رسوم ہر قوم و خاندان کے رواج اور طریقے جداگانہ(ہوتے ہیں) رسو م کی بنا عرف پر ہے یہ کوئی نہیں سمجھتا کہ شرعاً واجب یا سنت یا مستحب ہیں لہٰذا جب تک کسی رسم کی ممانعت شریعت سے ثابت نہ ہواُس وقت تک اُسے حرام و ناجائز نہیں کہہ سکتے، کھینچ تان کر ممنوع قرار دینا زیادتی ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ رسوم کی پابندی اسی حد تک کر سکتا ہے کہ کسی فعل حرام میں مبتلا نہ ہو۔بعض لوگ اِس قدر پابندی کرتے ہیں کہ ناجائز فعل کرنا پڑے تو پڑے مگر رسم کا چھوڑنا گوارا نہیں (یہ شرعاً درست نہیں )۔‘‘ (بھار شریعت،جلد2،حصہ 7،صفحہ104،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ایک سوال کے جواب میں  ارشاد فرماتے ہیں:’’پھولوں کا سہرا جیسا سوال میں مذکور رسوم دنیویہ سے ا یک رسم ہے جس کی ممانعت شرع مطہر سے ثابت نہیں، نہ شرع میں اس کے کرنے کا حکم آیا ، تو مثل اور تمام عادات ورسوم مباحہ کے مباح رہے گا۔شرع شریف کا قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جس چیز کو خدا ورسول اچھا بتائیں وہ اچھی ہے اور جسے برافرمائیں وہ بری ، اور جس سے سکوت فرمائیں یعنی شرع سے نہ اس کی خوبی نکلے، نہ برائی وہ اباحت اصلیہ پر رہتی ہے کہ اس کے فعل وترک میں ثواب نہ عقاب، یہ قاعدہ ہمیشہ یاد رکھنے کا ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ،جلد23،صفحہ320،319،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   جائز رسموں اور  کاموں میں کسی غیر شرعی کام کے ارتکاب کے بغیر لوگوں کی موافقت  کرلینی چاہئے ، جیسا  کہ  سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ  اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں :’’ائمہ دین ارشاد فرماتے ہیں لوگوں میں جو امررائج ہو جب تک اس سے صریح نہی ثابت نہ ہو ہر گز اس میں اختلاف نہ کیا جائے بلکہ انھیں کی عادات واخلاق کے ساتھ ان سے برتاؤ چاہئے۔  شریعت مطہرہ سنی مسلمانوں میں میل پسند فرماتی ہے اور ان کو بھڑ کانا،نفرت دلانا، اپنا مخالف بنانا، ناجائز رکھتی ہے۔ بے ضرورت تامہ لوگوں کی راہ سے الگ چلنا سخت احمق جاہل کا کام ہے۔امام حجۃ الاسلام قدس سرہ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں :’’ الموافقۃ فی ھذہ الامور من حسن الصحبۃ والعشرۃ اذ المخالفۃ موحشۃ وکل قوم رسم ولا بد من مخالطۃ الناس باخلاقھم کما ورد فی الخبر لاسیما اذا کانت اخلاقا فیھا حسن العشرۃ والمجاملۃ وتطییب القلب بالمساعدۃ ‘‘ان امور میں لوگوں سے موافقت ،صحبت ومعاشرت کی خوبی سے ہے اس لئے کہ مخالفت وحشت دلاتی ہے اور ہرقوم کی ایک رسم ہوتی ہے اور بالضرورۃ لوگوں کے ساتھ ان کی عادات کا برتاؤ کرنا چاہئے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا، خصوصا وہ عادتیں جن میں اچھا برتاؤ اور نیک سلوک اور موافقت کرکے دل خوش کرنا ہو۔ (فتاوی رضویہ،جلد22،صفحہ310،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم