Baghair Music Ke Gana Gane Ka Hukum

بغیر میوزک کے گانا گانے کا حکم

مجیب: فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-901

تاریخ اجراء: 20ذوالقعدۃ الحرام1444 ھ/09جون2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک شخص جس کو گانے گانا اچھا لگتا ہے  اور کبھی کبھی گا بھی لیتا ہے، جب اسے منع کیا جائے ،تو کہتا ہے کہ میں میوزک کے ساتھ  نہیں گا رہا، اس لئے کوئی مسئلہ نہیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس کی یہ بات درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مباح اشعار بغیرمیوزک پڑھنا، جائز ہے مگر عموماً  گانوں میں عشقیہ و فسقیہ اشعار ہوتے ہیں، بلکہ بعض اوقات گناہ و کفریات تک موجود ہوتے ہیں جن کا عوام کو پتہ بھی نہیں ہوتا ،لہذا اس شخص کو سمجھایاجائے کہ میوزک وغیرہ نہ ہو تب بھی گانے ہرگز نہ گایاکرے ،نیز عموماً گانے اس صورت میں یادہوتے ہیں جب انہیں انہماک سے سناجائے لہذا گاناگانے والااگر قصداً میوزک والے گانے سنتاہے، تواس کا یہ فعل ناجائزوگناہ ہے اس پرلازم ہے کہ اس گناہ سے سچی توبہ کرے اور آئندہ گانے ہرگزنہ سنے ۔

   سرکار  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا’’ لیکونن فی امتی اقوام یستحلون الحر و الحریر و الخمر و المعازف‘‘یعنی ضرور میری امت میں وہ لوگ ہونے والے ہیں جو عورتوں کی شرمگاہ (زنا )اور ریشمی کپڑوں اور شراب اور باجوں کو حلال ٹھہرائیں گے ۔(صحیح بخاری، کتاب الاشربۃ،جلد2 ،صفحہ837 ،مطبوعہ: کراچی)

   ردالمحتار میں ہے:”قال في تبيين المحارم : واعلم أن ما كان حراما من الشعر ما فيه فحش أو هجو مسلم أو كذب على اللہ تعالى أو رسوله صلى اللہ عليه وسلم أو على الصحابة أو تزكية النفس أو الكذب أو التفاخر المذموم ، أو القدح في الأنساب ، وكذا ما فيه وصف أمرد أو امرأة بعينها إذا كانا حيين ، فإنه لا يجوز وصف امرأة معينة حية ولا وصف أمرد معين حي حسن الوجه بين يدي الرجال ولا في نفسه “یعنی تبیین المحارم میں فرمایا:اور جان لو کہ  حرام اشعاروہ ہیں جن میں فحش گوئی ہو، کسی مسلمان کی برائی بیان کی گئی ہو ، اللہ پاک یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام علیہم الرضوان  پر جھوٹ باندھنا ہو ، تزکیۂ نفس ہو ، کذب بیانی ہو  ، ناجائز تفاخر ہو یا کسی کے نسب میں برائی نکالنا ہو اور اسی طرح جس میں کسی معین امرد یا معینہ عورت کا وصف بیان کیا جارہا ہو جبکہ یہ دونوں زندہ ہوں، کیونکہ لوگوں کے سامنے یا اپنے دل میں کسی معینہ زندہ عورت کا وصف بیان کرنا جائز نہیں اور نہ ہی کسی ایسے امرد کا وصف بیان کرنا جائز ہے جو معین و زندہ ہو اور خوبصورت ہو۔ (ردالمحتار، جلد9،صفحہ 578، دارالمعرفۃ،بیروت)

   امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” سماع مجرد بے مزامیر، اس کی چند صورتیں ہیں:اول: رنڈیوں ،ڈومنیوں،محل فتنہ امردوں کاگانا۔دوم: جو چیز گائی جائے معصیت پرمشتمل ہو ،مثلافحش یاکذب یا کسی مسلمان یا ذمی کی ہجو یا شراب وزنا وغیرہ فسقیات کی ترغیب یا کسی زندہ عورت خواہ امردکی بالیقین تعریف حسن یا کسی معین عورت کا اگرچہ مردہ ہو ایسا ذکر جس سے اس کے اقارب احبا کو حیا وعار آئے۔سوم: بطور لہوولعب سنا جائے اگرچہ اس میں کوئی ذکر مذموم نہ ہو ۔تینوں صورتیں ممنوع ہیں ،الاخیرتان ذاتا والاولی ذریعۃ حقیقۃ (آخری دو بلحاظ ذات اور پہلی درحقیقت ذریعہ ہے۔ت) ایسا ہی گانالہو الحدیث ہے اس کی تحریم میں اور کچھ نہ ہو تو صرف حدیث :کل لعب ابن اٰدم حرام الا ثلثۃ ( ابن آدم کا ہر کھیل حرام ہے سوائے تین کھیلوں کے ۔ت) کافی ہے ۔ان کے علاوہ وہ گانا جس میں نہ مزامیر ہوں نہ گانے والے محل فتنہ ،نہ لہو ولعب مقصود، نہ کوئی ناجائز کلام ،بلکہ سادے عاشقانہ گیت ،غزلیں ،ذکرِ باغ وبہار وخط وخال ورخ وزلف وحسن وعشق وہجر ووصل و وفائے عشاق وجفائے معشوق وغیرہا امورِ عشق وتغزل پرمشتمل سنے جائیں، تو فساق وفجار واہلِ شہواتِ دنیہ کو اس سے بھی روکا جائے گا، وذلک من باب الاحتیاط القاطع ونصح الناصح وسد الذرائع المخصوص بہ ھذا الشرع البارع والدین الفارغ (یہ رکاوٹ یقینی احتیاط کے باب سے ہے اس میں خیر خواہ کی خیرخواہی اور ذرائع کی روک تھام موجود ہے جو اس یکتا وفائق شریعت اور خوبصورت دین سے مخصوص ہے۔ ت)“(فتاوی رضویہ، جلد24،صفحہ 83، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   شارحِ بخاری ، فقیہ اعظم مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ کفریہ اشعار کے متعلق فرماتے ہیں:”جو لوگ ان اشعار کو پڑھتے ہیں سب کے سب اسلام سے خارج ہوکر کافر و مرتد ہوگئے، ان کے تمام نیک اعمال ضائع ہوگئے، ان کی بیویاں نکاح سے نکل گئیں اور ان پر فرض ہے کہ فوراً بلا تاخیر ان اشعار میں جو کفریات ہیں ان سے توبہ کریں کلمہ پڑھ کر پھر سے مسلمان ہوں اور اپنی بیویوں سے دوبارہ نکاح کریں۔اسی طرح جس نے ان اشعار کو سنا اور پسند بھی کیا، تو وہ بھی کافر ہوگیا۔“(فتاویٰ شارح بخاری،جلد1، صفحہ257، مکتبہ برکات المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم