Bed Ya Charpai Par Khana Khane Ka Hukum

بیڈ یا چارپائی پر کھانا کھانے کا حکم

مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2896

تاریخ اجراء: 15محرم الحرام1446 ھ/22جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک عورت کہتی ہے کہ بیڈ یا چارپائی پر بیٹھ کر کھانے سے گناہ ملتا ہے ، کیا اس کا کہنا درست ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    زمین پر دستر خوان بچھا کر کھانا کھانا ہمارے آقا ، حضرت محمد مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہے، لہذا جہاں تک ممکن ہوزمین پر دستر خوان بچھا کر کھانا  کھایا جائے ۔

      البتہ! بیڈ یا چارپائی پر بیٹھ کر کھانا بھی شرعاً جائز و درست ہے یعنی اگر کوئی  بیڈ یا چارپائی وغیرہ پر بیٹھ کر کھائے تو وہ گنہگار نہیں ہو گا،  ان کا معاملہ "میز  یا ڈائننگ ٹیبل " کی طرح ہے کہ علماء نے ان پر کھانا کھانے کو جائز اور درست قرار دیا ہے۔

       لہذا اس عورت کا اس عمل کو گناہ کہنا شریعت پر تہمت و افترا  اور سراسر غلط ہے  ،اس عورت کا بغیر علم کے اپنی طرف سے شرعی حکم  بیان کرنا "گناہ کبیرہ " ہے  اور ایسا کام کرنے والوں پر حدیث پاک میں لعنت کی سخت وعید آئی ہے ۔

   حدیث پاک میں ہے:"عن قتادۃ عن انس قال ما اکل النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی خوانٍ و لا فی سکرجۃ و لا خبز لہ مرقق، قیل لقتادۃ، علٰی ما یاکلون؟ قال علی السفر"ترجمہ:حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں،اور وہ  فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو میز پر کھانا کھایا، نہ چھوٹی پیالی میں اور نہ ہی آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے چپاتی پگائی گئی۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ وہ حضرات کس چیز پر کھاتے تھے؟ تو آپ نے فرمایا: دسترخوان پر۔(مشكاة المصابيح،جلد2، صفحہ  1211، المكتب الإسلامي ، بيروت)

   علامہ ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:”فالاکل علیھا سنۃ و علی الخوان بدعۃ لکنھا جائزۃ“ ترجمہ: میز پر کھانا بدعتِ جائزہ ہے اور دسترخوان پر کھانا سنت ہے۔(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح،  ج 7، ص  2696، دار الفكر، بيروت)

   صحیح بخاری میں ہے” عن قتادة، عن أنس بن مالك، قال: ما أكل النبي صلى الله عليه وسلم على خوان، ولا في سكرجة، ولا خبز له مرقق» قلت لقتادة: علام يأكلون؟ قال: على السفر“ترجمہ: حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں،اور وہ  فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو میز پر کھانا کھایا، نہ چھوٹی پیالی میں اور نہ ہی آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے چپاتی پگائی گئی۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ وہ حضرات کس چیز پر کھاتے تھے؟ تو آپ نے فرمایا: دسترخوان پر۔(صحیح بخاری،رقم الحدیث 5415،ج 7،ص 75،دار طوق النجاۃ)

   مذکورہ حدیث پاک کے تحت مرآۃ المناجیح میں ہے” دسترخوان کپڑے کا،چمڑے کا اورکھجور کے پتوں کا ہوتا تھا،ان تینوں قسم کے دسترخوانوں پر کھانا حضور نے کھایا ہے،دسترخوان بھی نیچے زمین پر بچھتا تھا اور خود سرکار بھی زمین پر تشریف فرما ہوتے تھے ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ کھانا ملاحظہ فرماتے تھے۔یہاں مرقات نے فرمایا کہ میز پر کھانا بدعت جائزہ ہے اور دسترخوان پر کھانا سنت ہے۔"(مرآۃ المناجیح،ج 6،ص 13،نعیمی کتب خانہ،گجرات)

   احیاء علوم الدین میں ہے” الثالث أن يوضع الطعام على السفرة الموضوعة على الأرض فهو أقرب إلى فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم من رفعه على المائدة كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أتى بطعام وضعه على الأرض ، حديث أنس ما أكل رسول الله صلى الله عليه وسلم على خوان ولا في سكرجة الحديث رواه البخاري،قيل فعلى ماذا كنتم تأكلون قال على السفرة“ترجمہ:کھانے کا تیسرا  ادب یہ ہے کہ کھانا دستر خوان پر رکھ جائے جوکہ زمین پر بچھایا گیا ہو۔میز پر کھانے کے بجائے یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے زیادہ قریب ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے پاس جب کھانا لایا جاتا تو آپ کھانے کو زمین پر رکھتے تھے،حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو میز پر کھانا کھایا، نہ چھوٹی پیالی میں،اسے امام بخاری نے روایت کیا،تو کہا گیا کہ آپ لوگ کس پر کھانا کھاتے تھے ؟تو فرمایا:دستر خوان پر۔(احیاء علوم الدین،آداب الاکل،ج 2،ص 3،دار المعرفۃ،بیروت)

   علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ "التیسیر شرح الجامع الصغیر"  میں حدیث پاک اور اسکی شرح  بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:" (من  افتی بغیر علم لعنتہ ملائکۃ السماء و الارض ) حیث نسب الی اللہ ان ھذا حکمہ و ھو کاذب " ترجمہ : جودینی علم  کے  بغیر  فتوی دے   اس پر آسمانوں اور زمین کے فرشتے لعنت کرتے ہیں  ؛ کیونکہ اس نے اللہ کی طرف یہ بات منسوب کی کہ جو مسئلہ میں نے   بیان کیا وہ  اللہ کا حکم ہے  حالانکہ وہ اس معاملہ میں جھوٹا ہے ۔(التیسیر شرح الجامع الصغیر   ،ج2 ، ص 402،  مکتبۃ الامام الشافعی ،  الریاض )

   فتاوی رضویہ میں ہے”جھوٹا مسئلہ بیان کرنا سخت  شدید کبیرہ ہے  ، اگر قصداً (جان بوجھ کر ) ہے تو شریعت پر افتراء ہے اور شریعت پر افترا ء،اللہ پر افترا ہے  اور اللہ عزوجل فرماتا ہے : ان الذین  یفترون علی اللہ الکذب لا یفلحون (بے شک جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہو گا )  اور اگر بے علمی سے ہے تو جاہل پر سخت حرام ہے کہ فتوی دے ۔ حدیث میں ہے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  فرماتے ہیں:من افتی بغیر علم لعنتہ ملائکۃ السماء و الارض (جو بغیر علم  کے فتوی دےاس پر آسمانوں اور زمین کے فرشتے لعنت کرتے ہیں  )۔"(فتاوی رضویہ ، ج23 ، ص 711،712، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم