Biwi Ke Kehne Par Darhi Ek Mutthi Se Choti Karna Ya Mundwana Kaisa ?

بیوی کے کہنے پر داڑھی ایک مٹھی سے چھوٹی کرنا یا منڈوانا کیسا ؟

مجیب: مفتی ابو محمد  علی اصغر عطاری

فتوی  نمبر: Faj-5409

تاریخ  اجراء: 03ذوالحجۃالحرام1440ھ/05اگست2019ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارےمیں کہ اگر کسی شخص کی ایک مٹھی داڑھی ہو اور اس کی بیوی اسے داڑھی خشخشی کروانے یا منڈوانے کا کہتی ہو اور ساتھ یہ بھی کہتی ہو کہ میری نظر داڑھی منڈوں پر پڑتی ہے جو  آنکھ کا زنا ہے اور اس کا وبال بھی آپ پر ہی ہوگا، تو کیا ایسی صورت میں اسے داڑھی خشخشی کروانے یا منڈوانے کی اجازت ملے گی؟رہنمائی فرمادیں۔ 

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   حکمِ شرع کو سب پر مقدم رکھنا ضروری ہے اور مرد کے لیے حکمِ شرع یہی ہے کہ وہ پوری ایک مٹھی داڑھی رکھے، جبکہ بیوی کا داڑھی خشخشی کروانے یا منڈوانے کا کہنا شرعاً ناجائز و گناہ ہے اور جو حکم شرعاً ناجائز ہو ، اس میں کسی کی بھی پیروی جائز نہیں ، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں شوہر کا بیوی کے کہنے پر داڑھی خشخشی کروانا یا بالکل ہی منڈوا دینا سخت ناجائز و حرام ہے۔

   عورت کی یہ نفسیاتی کمزوری ہے کہ اس کو داڑھی والے مرد اچھے نہیں لگتے ، ورنہ روایات میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عمامے اور داڑھی سے زینت بخشی ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:”امام زیلعی تبیین الحقائق، علامہ اتقانی غایۃ البیان، علامہ طوری تکملہ بحر، سب علماء کتاب الجنایات اور امام حجۃ الاسلام محمد غزالی کیمیائے سعادت میں ذکر کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :"ان للہ  ملائکۃ تسبیحھم سبحٰن من زین الرجال باللحی والنساء بالقرون والذوائب"یعنی اللہ عزوجل کے کچھ ملائکہ ایسے ہیں جن کی تسبیح یہ ہے کہ تمام پاکی اس ذات کے لئے ہے جس نے مردوں کو داڑھیوں سے اور عورتوں کو چوٹیوں سے زینت بخشی ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 664-665، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   اصل چیز یہ ہے کہ اپنے دل کا فتور دور کرنا ہی غیر کی طرف نظر اٹھنے کے خدشے کا حل ہے ۔ شیطان جب داڑھی رکھنے والے پر حاوی نہیں ہو پایا ، تو اس نےداڑھی منڈوانے کے مشن میں اب کسی اور کا سہارا لیا ہے، پس عورت پر لازم ہے کہ شریعت کے احکامات کے سامنے اپنا سر جھکا دے، اپنے دل کا فتور دور کرے۔ داڑھی میں تو بلا شبہ زینت ہے ، خوبصورتی ہے۔ اگر عورت کو یہ چیز خوبصورت نہیں لگتی ، تو اس کی اپنی نظر کا قصور ہے ۔ کسی جائز بات کو مثبت اور منفی دونوں طرح سے دیکھنے والے موجود ہوتے ہیں اور مثبت چیز کو بھی منفی کہنے والوں کی کمی نہیں ہوتی ، لیکن اہل عقل یہی کہتے ہیں کہ منفی سوچ رکھنے والوں کو اپنی سوچ کا زاویہ بدلنے کی حاجت ہوتی ہے ۔ یہی معاملہ اس خاتون کے ساتھ ہے ، اگر یہ اپنے سامنے صرف اس چیز کو رکھ لے کہ ہم سب کے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی رکھی اور آپ پوری مخلوق میں سب سے بڑھ کر حسین و جمیل ہیں اور داڑھی رکھنے کا آپ نے ہی حکم دیا اور آپ کے حکم پر عمل کرنےوالے کبھی نقصان میں نہیں رہتےاور نہ ہی اطاعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی غلطی کا کام ہے بلکہ فلاح کا راستہ ہے ، یہ چیز سامنے رکھی جائے گی ، تو امید ہے اس کی سوچ کا زاویہ تبدیل ہوگا اور منفی سوچ ، مثبت سوچ میں تبدیل ہو جائے گی۔ اب تک جو شریعت کی مخالفت کی تلقین کی ، اس پر سچی توبہ کے ذریعے اس غلطی کا بھی ازالہ کرنا ہو گا۔

   شوہر پر لازم ہے کہ حکم شریعت کی ہی پیروی کرے کہ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ جیساکہ صحیح بخاری شریف کی حدیثِ مبارک ہے:”عن علی  رضی الله عنه ان النبی صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم قال لا طاعۃ فی معصیۃ اللہ ، انما الطاعۃ فی المعروف“ یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عزوجل کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں، بلکہ مخلوق کی اطاعت تو فقط بھلائی کے کاموں میں ہی جائز ہے۔(صحیح البخاری ،جلد 2، صفحہ1077-1078،مطبوعہ کراچی، ملخصاً )

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”جس کو شرع مطہر نے ناجائز قرار دیا ہے ، اس میں اطاعت نہیں کہ یہ حقِ شرع ہے اور کسی کی اطاعت میں احکامِ شرع کی نافرمانی نہیں کی جاسکتی کہ معصیت میں کسی کی طاعت نہیں ہے۔ حدیث میں ہے لا طاعۃ للمخلوق فی معصیۃ الخالق“(فتاویٰ امجدیہ، جلد4، صفحہ 198، مکتبہ رضویہ کراچی )

   مزید ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:”جو حکم شرعاً ناجائز ہے اس میں کسی کی پیروی جائز نہیں، حکمِ شرع کو سب پر مقدم رکھنا ضروری ہے۔“(فتاویٰ امجدیہ، جلد4، صفحہ 222، مکتبہ رضویہ کراچی )

   کوئی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی﴾ترجمہ کنز الایمان:”اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسری کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔“(پارہ 22، سورۃ الفاطر، آیت18)

   اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ خزائن العرفان میں ہے:”معنیٰ یہ ہیں کہ روزِ قیامت ہر ایک جان پر اسی کے گناہوں کا بار ہو گا ، جو اس نے کئے ہیں اور کوئی جان کسی دوسرے کے عوض نہ پکڑی جائے گی۔“(تفسیرِ خزائن العرفان، صفحہ 808، مطبوعہ  مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم