Blood Donate Karne Aur Body Parts Donate Karne Mein Sharai Hukum Ka Farq

بلڈڈونیٹ کرنے اورباڈی پارٹ ڈونیٹ کرنے میں حکم کافرق

مجیب:ابو حذیفہ محمد شفیق عطاری

فتوی  نمبر: WAT-1424

تاریخ  اجراء: 03شعبان المعظم1444 ھ/24فروری2023ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   بلڈ ڈونیٹ کر سکتے ہیں لیکن باڈی پارٹ ڈونیٹ نہیں کر سکتے ، اس کی کیا وجہ ہے ، دونوں میں کیا فرق ہے؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

      بنیادی طور پر تو خون لینا دینا بھی منع اور ناجائز ہے ، ہاں بوقت ضرورت اس کی اجازت دی گئی ہےلیکن اعضاکاعطیہ کرنے کی بوقت ضرورت بھی  اجازت نہیں ہے ۔دونوں میں  چنداعتبارسے فرق  ہے ،اس کےمتعلق  سراج الفقہاء، حضرت علامہ مولانامفتی محمد نظام الدین صاحب مدظلہ العالی کے مقالے سے اقتباس درج کیاجاتاہے ،چنانچہ صحیفہ مجلس شرعی میں ہے” انسانی خون اور اعضا کے درمیان فرق:

    انسان کے خون اور عضو کےدر میان دو طرح سے فرق پایا جاتا ہے:

ایک کھلا فرق یہ ہے کہ خون ہر آن پیدا ہوتا رہتا ہے، مگر کوئی عضو انسانی کٹ کر جدا ہو جائے تو وہ دوبارہ نہیں پیدا ہوتا یہی وجہ ہے کہ اگر بدن کا کوئی عضومثلاً آنکھ، کان، گردہ، وغیرہ کٹ کر جدا ہو جائے تو اس کی جگہ ویسا ہی دوسرا عضو نہیں پیدا ہوتا جو اس کا متبادل ہو سکے ، اس طرح انسان اپنے عضو سے زندگی بھر کے لیے محروم ہو جاتا ہے۔ مگر خون بدن سے نکل جائے تو اس کی جگہ تازہ خون پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے اور چند ہی دنوں میں ضائع شدہ خون کی تلافی ہو جاتی ہے، اس کے لیے غذاؤں اور دواؤں کا تعاون بھی حاصل ہوتا ہے، طب یونانی میں ذہبی اور عنبری اس کی مشہور دوائیں ہیں۔

دوسرا فرق یہ ہے کہ خون بدن کے ان اجزا سے ہے جو ضرورت کے وقت مباح ہو جاتے ہیں، جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے: (اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِۚ-فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) ترجمہ: اللہ نے تم پر یہی حرام کیے ہیں: مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا تو جو مضطر و نا چار ہو، نہ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں کہ ضرورت سے آگے بڑھے تو اس پر گناہ نہیں۔(آیت 173،سورہ بقرہ2)

نیز اس پر چاروں مکاتب فقہ کے پیروکاروں کا اجماع ہے اور فقہ حنفی کے ایک ترجمان حضرت علامہ تمر تاشی رحمتہ اللہ علیہ نے شرح جامع صغیر میں تہذیب کے حوالے سے یہ انکشاف فرمایا ہے کہ بیمار کو ضرورت کی بنا پر خون اور پیشاب پینا جائزہے۔( غمز العیون والبصائر شرح الاشباہ والنظائر ص ۱۰۸، قاعده خامسه، فن اول)

   اور پینے کے سوا کسی اور طور پر خون سے انتفاع بوقت حاجت بھی جائز ہے۔ اس کے برخلاف عضو انسانی سے انتفاع ضرورت اور اضطرار کے مواقع میں بھی جائز نہیں ، جیسا کہ بدائع الصنائع کتاب الاکراہ ، نیز دوسری کتب فقہ میں اس کی صراحت موجود ہے۔(صحیفہ مجلس شرعی،ج 2،ص 377،378،دار النعمان،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم