Choti Bachi Ke Kaan Chidwana Kaisa ?

چھوٹی بچی کے کان چھدوانا کیسا؟

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد   ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Lar-12753

تاریخ اجراء:07رمضان المبارک 1445 ھ/18مارچ 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے  بارے میں کہ   چھوٹی بچی کے کان چھدوانا،جائزہے یانہیں ؟کیونکہ اس میں بچی کوکافی تکلیف بھی ہوتی ہے ۔اس  کام کےلیےبچی کوتکلیف دینے کی شرعاًاجازت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بچی کے کان چھدوانا،جائزہے،اس کے لیے بچی کوتکلیف دینے کی شرعاًاجاز ت ہے،کیونکہ یہ عمل نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک بغیر کسی انکارکے جاری وساری ہے،نیز یہ زینت کی منفعت کے حصول کےلیے تکلیف دینا ہے اور ایسی مصلحت کی وجہ سے تکلیف دینا کہ جو مصلحت اس کی طرف لوٹتی ہو،جائزہوتا ہے، جیساکہ  بچے کا ختنہ کرانےکی شرعاًاجازت ہے۔

   جائز زینت کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَ جَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِترجمہ: تم فرماؤ: اللہ کی اس زینت کو کس نے حرام کیا، جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا فرمائی ہے؟ اور پاکیزہ رزق کو (کس نے حرام کیا؟)۔(سورۃ الاَعراف ، آیت 32)

   بخاری شریف میں ہے:”عن ابن عباس رضي اللہ عنهما أن النبي صلى اللہ عليه وسلم صلی  يوم العيد ركعتين، لم يصل قبلها ولا بعدها، ثم أتى النساء ومعه بلال، فأمرهن بالصدقة، فجعلت المرأة تلقي قرطها“ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے عید کے روز دو رکعتیں پڑھیں ، اس سے پہلے یا بعد کبھی نہیں پڑھیں، پھر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عورتوں کے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، آپ نے ان عورتوں کو صدقہ کرنے کاحکم دیا، تو عورت اپنے کان سے بالیاں نکال کر (حضرت بلال کے کپڑے میں ) ڈالتی تھی۔ (بخاری شریف، جلد 7، صفحہ 158،مطبوعہ  بیروت)

   النهایۃ فی شرح الهدایۃ،جلد23،صفحہ 125،نصاب الاحتساب،صفحہ302،غمز عيون البصائر فی شرح الأشباه والنظائر،جلد3،صفحہ 317،حاشية ابن عابدين ،جلد6،صفحہ 420اورالمحيط البرهانی فی الفقه النعمانی میں ہے:’’ لابأس بثقب أذن الطفل من البنات،فقدصح أنهم كانوايفعلون ذلك فی زمن رسول اللہ عليه السلام من غير إنكاره‘‘ ترجمہ:بیٹیوں کے کا ن چھدوانے میں کوئی حرج نہیں ،کیونکہ لوگ زمانہ جاہلیت میں یہ عمل کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع نہ فرمایا۔(المحيط البرهانی فی الفقه النعمانی ،جلد5،صفحہ381، دار الكتب العلميہ، بيروت)

   فتاوی قاضی خان میں ہے:و لا بأس بثقب أذن الطفل لأنهم كانوا يفعلون ذلك في الجاهلية و لم ينكر عليهم  رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم“ترجمہ:بچی کے کان میں سوراخ نکالنے میں کوئی حرج نہیں ،کیونکہ لوگ زمانہ جاہلیت میں یہ عمل کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع نہ فرمایا۔(فتاوی قاضی خان،جلد03،صفحہ251، بیروت)

   البحرالرائق شرح کنزالدقائق میں ہے:”وكذا يجوز ثقب أذن البنات الأطفال لأن فيه منفعة الزينة، وكان يفعل ذلك في زمنه  عليه الصلاة والسلام إلى يومنا هذا من غير نكير “ترجمہ:اورایسے ہی چھوٹی بچیوں کے کانوں میں سوراخ نکالنا جائز ہے،کیونکہ اس میں زینت کا فائدہ حاصل ہوتاہے اوریہ عمل نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک بغیر کسی انکارکے جاری وساری ہے۔(البحرالرائق شرح کنزالدقائق ،جلد08،صفحہ554، دارالکتاب الاسلامی،بیروت)

   الاختیارلتعلیل المختارمیں ہے:’’ولابأس بثقب اذن البنات الاطفال لانہ ایلام لمنفعۃ الزینۃ وایصال الالم الی الحیوان لمصلحۃ تعودالیہ جائزکالختان‘‘ترجمہ:بچیوں کے کانوں میں سوراخ کرنے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ یہ زینت کی منفعت کے لیے تکلیف دینا ہے اور جاندار کو کسی ایسی مصلحت کی وجہ سے تکلیف دینا کہ جو مصلحت اس کی طرف لوٹتی ہو،جائز ہے، جیسے ختنہ کرانا۔(الاختیارلتعلیل المختار، جلد 4، صفحہ 167،  دارالکتب العلمیہ،  بیروت)

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”اقول:  و لا شک ان ثقب الاذن کان شائعا فی زمن النبی صلی اللہ  تعالی علیہ وسلم وقد اطلع صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ولم ینکرہ ثم لم یکن الا ایلاما للزینۃ فکذا ھذا بحکم المساواۃ فثبت جوازہ بدلالۃ النص المشترک فی العلم بھا المجتھدون وغیرھم کما تقرر فی مقررہ“ ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ کان چھیدنا نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے عہد مبارک میں متعارف اور مشہور تھا اور حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس پر اطلاع پائی، مگر ممانعت نہیں فرمائی، پھر یہ (کان چھیدنے کی ) تکلیف پہنچانا، صرف زیب وزینت کے لیے ہو گا اور اسی طرح یہ (ناک چھیدنا)بھی ہے کہ دونوں کا حکم مساوی ہو گا۔ پس اس کا جائز ہونا، دلالتِ نص کی بنیاد پر ثابت ہو گیا، اس علم سے جس میں مجتہد وغیر مجتہد مشترک ہیں، جیسا کہ یہ بات اپنے محل میں ثابت ہو چکی ہے۔ (فتاوی رضویہ ، جلد 23،صفحہ 482، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم