Dadhi Mondne Wale Nai Ke Ghar Khana Khana Kaisa ?

داڑھی مونڈنے والے نائی کے گھر کھانا، کھانا کیسا؟

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2308

تاریخ اجراء: 15جمادی الثانی1445 ھ/29دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   نائی جوکہ داڑھی مونڈنے کا بھی کام کرتا ہو ایسے  کے گھر کھانا پینا کیسا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولا تو یہ یاد رکھیں کہ داڑھی مونڈنے کی اجرت ناجائز و حرام ہے،کیونکہ داڑھی مونڈنا مونڈانا  یا کٹواکر ایک مٹھی سے کم کرنا  کروانا ناجائز و حرام ہے اور ناجائز و حرام کی اجرت لینا  بھی ناجائز و حرام ہے ۔

   اور اس کے یہاں کھانے پینے کے حوالے سے حکم شرعی یہ ہے کہ :

   اس  کی ذریعہ آمدنی حرام پر بھی مشتمل ہے تو ایسے شخص کے یہاں کھانے پینے سے بچناچاہیے البتہ اس کے یہاں کا کھانا یا پینا  مطلقا حرام نہیں  کیونکہ عمومی طور پریہ  ہوتا   ہےکہ اس کا حرام وحلال مال مخلوط (مکس)ہوتا ہےکہ وہ بالوں کی جائز کٹنگ بھی کرتاہے  اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ خاص مال حرام سے ضیافت کا انتظام کیا ہے ، اورپھرجوخاص مال حرام ہے ،تواس سے خریدنےمیں عموماعقدونقدجمع نہیں ہوتے (یعنی خاص حرام مال دکھاکرکہاکہ اس کے بدلے فلاں چیز دو اورپھروہی مال اسے دیا،عام طورپرایسانہیں ہوتا)اس لئے اس کے یہاں کھانا پینا جائز تو ہے ،لیکن بچنابہترہے اورخاص طورپر علماء و فقہاء یعنی دینی وجاہت والے افراد کو چاہئے کہ اس کے یہاں کھانے سے احتراز کریں تاکہ ایسے لوگوں کو عبرت ہو ۔

   داڑھی کے بال بالکل ہی مونڈدینا  یا کاٹ کر ایک مٹھی سے کم کرنا ناجائز ہے،چنانچہ فتح القدیر ،بحر الرائق اور غنیۃ ذوی الاحکام میں ہے،واللفظ للآخر:”ألأخذ من اللحیۃ وھی دون القبضۃ کما فعلہ بعض المغاربۃ و مخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد و أخذ کلھا  فعل مجوس الأعاجم و الیھود و الھنود  و بعض أجناس الافرنج “یعنی:جب داڑھی ایک مشت سے کم ہو تو اس میں سے کچھ لینا (کاٹنا)جس طرح بعض مغربی اور مخنث مرد کرتے ہیں اس کو کسی نے بھی مباح نہیں قرار دیا اور پوری  داڑھی مونڈادینا مجوسیوں ،یہودیوں ،ھندؤوں اور بعض فرنگیوں کا فعل ہے۔(  غنیۃ ذوی الاحکام،جلد 01،صفحہ 208،مطبوعہ :کراچی)

   امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ " فتاوٰی رضویہ" میں فرماتے ہیں :” حرام فعل کی اُجرت میں جو کچھ لیا جائے وہ بھی حرام ۔۔ناجائز کا ترک واجب اور اجرت اس پر لینا حرام۔“(ملخص ازفتاوٰی رضویہ ،جلد21،صفحہ 187،مطبوعہ: رضا فاونڈیشن، لاہور)

   مزیدفتاوی رضویہ میں ہے"جس کے یہاں حلال وحرام دونوں طرح کی آمدنی ہے اس کاکھاناحرام نہیں ہوتاجب تک معلوم نہ ہوکہ یہ خاص کھاناحرام مال سے ہے ۔ذخیرہ وفتاوی عالمگیریہ میں امام محمدرضی اللہ تعالی عنہ سے ہے۔" (فتاوی رضویہ،ج24،ص502،رضافاونڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم