Dhobi Ko Dhone Wale Kapron Se Paise Milein To Kya Hukum Hai?

دھوبی کو دھونے والے کپڑوں سے پیسے ملیں ، تو کیا حکم ہے

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs 1295

تاریخ اجراء:02رجب المرجب1439ھ/20مارچ2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم نے گھر میں دھوبی گھاٹ بنایا ہوا ہے ۔ ایک دن کپڑوں سے کسی کا 5 ہزار کا نوٹ گر کر ایک کونے میں پڑا ہوا تھا، جو گھر کی ایک خاتون نے اٹھا کر رکھ لیا ، تاکہ جو آئے گا ، اسے دے دوں گی ، لیکن ایک سال ہوگیا ہے ، ابھی تک کوئی نہیں آیا ، تو وہ صدقہ کر دے یا خود استعمال کر لے ؟جبکہ وہ خاتون خود بھی شرعی فقیر ہے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    گری پڑی چیز کو اٹھا کر رکھ لینا کافی نہیں ہوتا ، بلکہ اس کا اعلان  کرنا، مالک کی معلومات کی کوشش کرنا  ضروری ہوتا ہے ، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے پاس جو لوگ کپڑے دھلانے آتے ہیں ، ان سے پوچھیں ، اشتہار وغیرہ لکھ کر باہر لگا دیں یا تشہیر کی کوئی اور ترکیب بنائیں۔اگر تشہیر کے بعد بھی مالک کا پتہ نہ چلے اور غالب گمان ہوجائے کہ اب مالک کا پتہ نہیں چل سکتا ، تو اس عورت کو اختیار ہے ، چاہے وہ پیسے اپنے پاس محفوط کر کے رکھ لے اور مزید انتظار کرے  یا مسجد ومدرسہ کسی بھی کارِ خیر میں لگا دے یا خود شرعی فقیر ہے ،تو خود استعمال کر لے ۔

    تبیین الحقائق میں ہے :’’ عرف اللقطۃ الی ان یغلب علی ظنہ ان صاحبھا لا یطلبھا ثم تصدق ای تصدق  باللقطۃ اذا لم یجیئ صاحبھا بعد التعریف‘‘ ترجمہ :(لقطہ اٹھانے والا شخص ) لقطہ کا اعلان کرتا رہے ،یہاں تک اسے ظن غالب ہو جائے کہ اب لقطہ کا مالک تلاش نہیں کرے گا، پھر صدقہ کر دے یعنی اعلان کرنے کے بعد مالک نہ آئے ، تو لقطہ صدقہ کر دے ۔

(تبیین الحقائق  جلد 4 ،صفحہ 212 ، 216 ،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ،بیروت )

    بدائع الصنائع میں ہے :” اذا عرفها ولم يحضر صاحبها مدة التعريف فهو بالخيار ان شاء امسكها الى ان يحضر صاحبها  وان شاء تصدق بها على الفقراء ولو اراد ان ينتفع بها فان كان غنيا لا يجوز ان ينتفع بها عندنا “         

    ترجمہ:جب لقطے کی تشہیر کی اور اس کامالک اس تشہیر کی مدت میں نہیں آیا تو لقطہ اٹھانے والے کو اختیار ہے ۔ چاہے اپنے پاس روکے رکھے ، یہاں تک کہ مالک آئے ( تو اس کے سپرد کر دے ) اور چاہے تو فقرا پر صدقہ کر دے اور اگر خود نفع اٹھانا چاہتا ہے ، تو اگر وہ غنی ہے ، تو ہمارے نزدیک اس کے لیے نفع اٹھانا ، جائز نہیں ہے ۔

(بدائع الصنائع، کتاب اللقطۃ، فصل فی بیان ما یصنع بھا، جلد5، صفحہ 298، مطبوعہ کوئٹہ )

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں :”وہ مثل مالِ لقطہ ہے، مصارفِ خیر مثل مسجد اور مدرسہ اہل سنت ومطبع اہل سنت وغیرہ میں صَرف ہوسکتاہے ۔“

(فتاوی رضویہ ، جلد23، صفحہ 563، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

    صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں : ’’اُٹھانے والا اگر  فقیر ہے ، تو مدتِ مذکورہ تک اعلان کے بعد خود اپنے صرف میں بھی لا سکتا ہے ۔‘‘

(بہارِ شریعت ، حصہ 10 ، جلد 2 ، صفحہ 476 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )                                                                                                                                                                                                                                          

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم