Doodh Mein Pani Mila Kar Bechna Kaisa Hai ?

دودھ میں پانی ملاکر بیچنا کیسا ؟

مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری

فتوی نمبر:WAT-2243

تاریخ اجراء: 22جمادی الاول1445 ھ/07دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   دودھ میں پانی کی ملاوٹ کر کے بیچنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صور ت میں اگر وہاں ملاوٹ والا دودھ عام طور پر بکتا ہے،اور عموماًوہاں کےلوگ اس کی ملاوٹ پر مطلع ہیں اور ملاوٹ پر مطلع ہونے کے باوجود بھی اسے خریدتے ہیں، نیز  عام طور پر جتنی ملاوٹ ہونا لوگوں کے ذہن میں ہے اسی قدر ملاوٹ کے ساتھ بیچا جائے ،اس میں اپنی طرف سے زیادتی نہ کی جائے ،نہ کسی طرح سے اس کی ملاوٹ چھپائی جائے (مثلاً اسے خالص کہہ کر نہ بیچا جائے )اوراگرکوئی اجنبی،دوسرے علاقے وغیرہ سے آئے تواسے بھی مطلع کردیاجائے اور نہ ہی ایسا دودھ بیچنے پر وہاں قانونی پابندی ہو،غرض کسی طرح دھوکہ  وفریب نہ ہواورنہ قانونی ممانعت ہوتو ملاوٹ والا دودھ بیچنا شرعاً جائز ہو گا۔

   البتہ! اگر مذکورہ شرائط میں سےکوئی  ایک شرط بھی کم ہوئی، مثلاً وہاں عموماً خالص دودھ بیچا جاتا ہے یا وہاں کے لوگ ملاوٹ پر مطلع نہیں ہیں، یاکوئی اجنبی ہے ،جومطلع نہیں ،اگر ملاوٹ پر مطلع ہو جائیں، تو دودھ نہیں خریدتے، یا جتنی ملاوٹ ہونا لوگوں کے ذہنوں میں ہے، اس سے زیادہ ملاوٹ کر کے بیچیں یا کسی کے پوچھنے پر جھوٹ بول دیں  کہ دودھ میں  ملاوٹ بالکل نہیں یا اتنی نہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہو، یا پھر وہاں ایسا دودھ بیچنے پر قانونی طور پہ پابندی ہے، تو پھر ایسی ملاوٹ والا دودھ بیچنا، جھوٹ، دھوکے یا قانونی جرم پر مشتمل ہونے کی وجہ  سےناجائز و حرام اور گناہ ہے، اگرچہ کم بھاؤ میں ہی کیوں نہ بیچا جائے۔

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے ملاوٹ والاگھی بیچنے کے متعلق سوال ہواتواس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ نے فرمایا:” اگریہ مصنوعی جعلی گھی وہا ں عام طور پر بکتاہے کہ ہر شخص اس کے جعل ہونے پر مطلع ہے اور باوجود اطلاع خریدتاہے تو بشرطیکہ خریداراسی بلد کا ہو، نہ غریب الوطن تازہ وارد ناواقف اور گھی میں اس قدر میل سے جتنا وہا ں عام طورپر لوگو ں کے ذہن میں ہے اپنی طرف سے اور زائد نہ کیا جائے نہ کسی طرح اس کا جعلی ہونا چھپا یاجائے، خلاصہ یہ کہ جب خریداروں  پر اس کی حالت مکشوف ہو اور فریب ومغالطہ راہ نہ پائے تو اس کی تجارت جائزہے۔آخر  گھی بیچنا بھی جائز اور جوچیز اس میں ملائی گئی اس کا بیچنا بھی، اور عدم جواز صرف بوجہ غش وفریب تھا، جب حال ظاہر ہے غش نہ ہوا، اور جواز رہا جیسے بازاری دودھ کہ سب جانتے ہیں کہ اس میں پانی ہے او ر باوصف علم خریدتے ہیں،یہ اس صورت میں ہے جبکہ بائع وقت بیع اصلی حالت خریدار پرظاہر نہ کردے، اور اگر خود بتادے تو ظاہر الروایت ومذہب امام عظم رضی اللہ تعالٰی عنہ میں مطلقا جائز ہے خواہ کتنا ہی میل ہو اگرچہ خریدار غریب الوطن ہو کہ بعدبیان فریب نہ رہا۔"(فتاوی رضویہ،ج 17،ص 150،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم