Duniya Aur Akhirat Ke Gham Se Azadi Ki Dua Karna Kaisa

دنیا اور آخرت کے غموں سے آزاد ہونے کی دعا کرنے کا حکم

مجیب: مولانا فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1012

تاریخ اجراء: 29صفرا لمظفر1445 ھ/16ستمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   سوال یہ ہےکہ ایسی دعا کرنا کیسا کہ اللہ ہمیں دنیا و آخرت کے غموں سے آزاد کرے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر اس سے مراد ہمیشہ ہر قسم کے غموں سے  نجات  ہے تو  یہ محال عادی ہے ، اس کی دعا نہیں کرسکتے اور اگراس سے مراد خاص قسم کے غم ہیں مثلاً ناقابل برداشت غم مراد ہوں تو یہ دعا مانگنے میں حرج نہیں ۔

      در مختار میں ہے :”ویحرم سؤال العافیۃ مدی الدھر ، او خیر الدارین ودفع شرھما ،او المستحیلات العادیۃ “یعنی:ہمیشہ کی عافیت یا دونوں جہانوں کی خیر یا دونوں جہانوں کے شر کے دفع یا محال عادی کا سوال حرام ہے ۔ (در مختار ،جلد 2،صفحہ 287،مطبوعہ دار المعرفہ بیروت )

   رد المحتار میں ہے:”الا ان یرید ۔۔۔بما لا یطاق الرزایا والمحن فیجوز“یعنی:ہاں اگر  ایسی مصیبتیں اور تکالیف مرادلی جائیں جن کی طاقت نہیں ہوتی تو ان سے پناہ مانگناجائزہے ۔(ردالمحتار،جلد 2،صفحہ 287،مطبوعہ دار المعرفہ بیروت )

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :” محالات عادیہ و محالات شرعیہ کی دُعا حرام ہے۔(بہار شریعت ،جلد 1،صفحہ 535،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی )

   اعلی حضرت امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” دُرّ ِمختار وغیرہ میں اسی قبیل سے گِنا: ہمیشہ کے لئے تندرستی وعافیت مانگنا کہ آدمی کا عمر بھر کبھی کسی طرح کی تکلیف میں نہ پڑنا بھی محال عادی ہے۔أقول: مگر حدیث شریف میں ہے :(اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ وَتَمَامَ الْعَافِیَۃِ وَدَوَامَ الْعَافِیَۃِ)اِلٰہی! میں تجھ سے مانگتا ہوں عافیت اور عافیت کی تمامی اور عافیت کی ہمیشگی۔ مگر یہ کہ ''تَمَامَ الْعَافِیَۃِ'' سے دین ودنیا وروح وجسم کی عافیت ہر بَلاسے مراد ہو جو حقیقۃً بَلا ہے، یا ناقابلِ برداشت اگرچہ بنظر ِاجر وجزا، نعمت وعطا ہے۔(فضائل دعا، صفحہ172۔ 173، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم