Electric Cigarette Kya Hoti Hai Or Uska Shari Hukum?

الیکٹرک سگریٹ کیا ہوتی ہے اور اس کے استعمال کا شرعی حکم ؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-6392

تاریخ اجراء:19ربیع الثانی1441ھ17دسمبر2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ

    (1)ای سگریٹ کیا ہوتی ہے؟

    (2) اور اس کے استعمال کا شرعی حکم کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    (1) ای سگریٹ (e cigarette)سے مراد ’’الیکٹرانک سگریٹ(electronic cigarette)‘‘ ہے، جو سگریٹ نوشی کا متبادل ذریعہ ہے۔ یہ عموماً تین حصوں پرمشتمل ہوتی ہے: بیٹری(battery) ، ایٹمائزر atomizer (ہیٹنگ ایلیمنٹheating element) اورمحلول کے لئے کارٹریج(cartridge)۔ اس میں کسی شعلے یا تمباکو کی حاجت نہیں ہوتی۔ اسے استعمال کرنے کو ’’ویپنگ(vaping)‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دو طرح کی ہوتی ہے : آٹو میٹک (automatic)اور مینول(manual)۔ آٹو میٹک ای سگریٹ استعمال کرنے والا جب کش لگاتا ہے، تو فوراً ہی سینسر (sencor) ایٹمائزر کو کَرنٹ فراہم کرتا ہے، جس سے وہ گرم ہو کر محلول کو بخارات میں بدلتا ہے اور بخارات سانس کے ساتھ انسان کے منہ میں داخل ہو جاتے ہیں اور مینول ای سگریٹ کو بٹن دبا کر کش لگایا جاتا ہے۔ اس کے کارٹریج میں عمومی طور پہ نکوٹین(nicotine)، گلیسرین (glycerine)اور مختلف پھلوں کے فلیورز (flavours) موجود ہوتے ہیں۔

    عام سگریٹ میں نکوٹین نامی مادہ  تمباکو میں ہوتا ہے، جو تمباکو کے جلنے سے دھویں کے ساتھ انسان کے اندر داخل ہوتا ہے،جبکہ ای سگریٹ میں نکوٹین کے محلول کو بخارات میں تبدیل کر کے استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر ان میں بعض کو رِی فِل (refill) کیا جا سکتا ہے اور بعض ڈسپوزبل (disposable) ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عام سگریٹ کے مقابلے میں ای سگریٹ کے نقصانات کم ہیں، لیکن ایک تحقیق کے مطابق اس میں موجود کیمیکلز (chemicals) صحتِ انسانی کے لیے اُتنے ہی خطرناک ہیں، جتنے تمباکو سے بھرے ہوئے سگریٹ ہوتے ہیں۔ نیز ایک جائزے کے مطابق مارکیٹ میں کم و بیش پانچ سو برانڈز (brands) کے الیکٹرانک سگریٹ دستیاب ہیں، جن کے فلیورز کی تعداد آٹھ ہزار سے زائد ہے۔ (یہ تفصیل ویکیپیڈیا، مختلف ویب سائٹس اوردیگر ذرائع سے حاصل کی گئی ہے ۔ )

    (2) مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ مارکیٹ میں مختلف اقسام کے ای سگریٹس دستیاب ہیں ، تو سب کے لیے ایک متعین حکم بیان نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا ان کے استعمال کی شرعی حیثیت درج ذیل تفصیل کے مطابق ہو گی:

    (۱) اگر یہ سگریٹ نشہ آور مواد سے خالی ہو اور اس کا استعمال منہ میں بد بو پیدا نہ کرے، تو اسے استعمال کرنا مباح ہے (یعنی نہ ثواب ہے اور نہ گناہ)، لیکن طبی اعتبار سے نقصان دہ ہونے کی وجہ سے اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔

    (۲) اگر اس کے استعمال سے منہ میں قابلِ نفرت بُو پیدا ہو جائے، تو اس کی ویپنگ مکروہ و خلافِ اولیٰ ہو گی، جیسا کہ کچا لہسن اور پیاز استعمال کرنے کا حکم ہے۔ نیز اس صورت میں جب تک منہ سے بو آ رہی ہو، مسجد میں داخل ہونا اور (وقت میں گنجائش ہو تو) نماز پڑھنا منع ہو گا، لہذا مسجدمیں داخل ہونے اور نماز پڑھنے سے قبل منہ کو خوب اچھی طرح صاف کرنا ہو گا۔

    (۳) اور اگر کوئی سگریٹ ایسے لیکوڈ (liquid) یا مواد پر مشتمل ہو، جو عقل و حواس میں فتور پیدا کرے اور نشہ دے، تو اس کا استعمال ناجائز و حرام اور گناہ ہے کہ حدیثِ پاک میں ہر نشہ آور فتور پیدا کرنے والی چیز کے استعمال سے منع فرما دیا گیا ہے۔

    سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:’’رہا حقہ نوشی کا، تمباکو نوشی کا مسئلہ، تو اگر وہ عقل اور حواس میں فتور پیدا کرے، جیسا کہ رمضان شریف میں افطار کے وقت ہندوستان کے جاہلوں کا معمول ہے، تو یہ بطور خود حرام ہے۔ سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ایک حدیث کی وجہ سے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ہر نشہ آور فتور پیدا کرنے والی چیز کا استعمال ممنوع ہے۔ امام احمد اور ابو داؤد نے سند صحیح کے ساتھ اس کو روایت کیا ہے۔

    ورنہ اگر اسے معمول نہ بنائیں، لیکن قابلِ نفرت بدبو پیدا ہو جائے، تو مکروہ تنزیہی اور خلافِ اولی ہے، جیسے کچا لہسن اور پیاز استعمال کرنا اور اور اگر اس سے بھی خالی ہو یعنی بدبو وغیرہ نہ ہو، تو مباح ہے ۔ ‘‘

(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 299 تا 300، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    فتاوی امجدیہ میں ہے:’’کچا لہسن، پیاز کھانا مکروہ ہے اور کھانے کے بعد جب تک بو باقی ہے، مسجد میں جانا منع ہے اور اگر وقت میں گنجائش ہو، تو نماز میں بھی تاخیر کرے، ورنہ بدرجہ مجبوری پڑھ لے۔ یوہیں جب تک بو باقی ہو، تلاوت بھی مکروہ ہے اور وجہ سب کی یہ ہے کہ اس سے فرشتوں کو ایذا ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے:’’فان الملائکۃ تتاذی مما یتاذیٰ بہ الانس‘‘ اور پختہ لہسن پیاز کھانے میں حرج نہیں کہ اس کے کھانے سے بدبو نہیں پیدا ہوتی اور ہنگ میں چونکہ بدبو ہوتی ہے، لہذا یہ بھی کچے لہسن کے حکم میں ہے ۔ ‘‘

(فتاوی امجدیہ، حصہ 4، صفحہ149 تا 150، مکتبہ رضویہ، آرام باغ، کراچی)

    مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ بیڑی، سگریٹ اور حقہ پی کر مسجد میں داخل ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:” خوب منہ صاف کرنے کے بعد مسجد میں داخل ہو، اس لئے کہ بیڑی اور سگریٹ وغیرہ کی بو جب تک کہ باقی ہو، مسجد میں داخل ہونا، جائز نہیں ۔ ‘‘

(فتاوی فیض الرسول، جلد 1، صفحہ 535، شبیر برادرز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم