Farmi Murgi Khane Ka Hukum

فارمی مرغی کھانے کا حکم

مجیب:مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2821

تاریخ اجراء:19ذوالحجۃالحرام1445 ھ/26جون2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   فارمی مرغی کھانے کا کیا حکم ہے؟میڈیکل کے لحاظ سے تو نقصان دہ ہے،شرعی لحاظ سے اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیجئے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فارمی مرغی کھانابلاکراہت جائزہے ،اگرچہ اس کی خوراک حرام وناپاک چیزوں پر مشتمل ہو،کیونکہ اس وجہ سے اس کے گوشت کے ذائقہ اوربومیں کوئی فرق نہیں پڑتااوراگر فرق پڑجائے تو اس کوکچھ دن بندرکھیں اوردانہ پانی کھلائیں اور وہ بوچلی جائے تو بلاکراہت کھانا جائز ہے۔

   کتاب الاصل میں امام محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”قلت: أرأيت لحوم الإبل الجلالة أتكره أكل لحومها؟ قال: نعم ۔۔۔ قلت: أرأيت الدجاج هو أقذر منها وأنت لا ترى بأكلها بأسا؟ قال: لأن الإبل قد جاء فيها أثر ونهي عن أكلها؛لأن الإبل ليس لها علف غير ذلك، والدجاجة تخلط “ترجمہ:  میں نے  سوال کیا ،جلالہ اونٹ کے گوشت کے بارےآپ(یعنی امام اعظم) رحمۃ اللہ علیہ کی کیا رائے ہے کہ اس گوشت کھانا مکروہ ہے؟امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ،ہاں(مکروہ ہے۔) میں نے پوچھا،مرغی کے بارے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کیا رائے ہے؟کہ وہ تو جلالہ اونٹ سے بھی زیادہ گندی ہے ۔جبکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں جانتے۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ،اس لئے کہ جلالہ اونٹ کےبارے مروی حدیث میں اسے کھانے سے منع فرمایا گیا ہے؛کیونکہ ایسا اونٹ صرف گندگی ہی کھاتا ہے جبکہ مرغی ملی جلی غذاکھاتی ہے۔(الأصل لمحمد بن الحسن، جلد5،صفحہ396 ،مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ ،بیروت)

   مبسوط سرخسی،فتح باب العنایہ اور بنایہ شرح الہدایہ میں ہے:”واللفظ للاول:لا بأس بأكل الدجاجة وإن كانت تقع على الجيف؛ لأنها تخلط، ولا يتغير لحمها ولا ينتن“ ترجمہ:مرغی کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ بدبودار چیزیں کھاتی ہو؛کیونکہ وہ ملی جلی غذاکھاتی ہےاور اس کا  گوشت بدل کر بدبودار نہیں ہوتا ۔(المبسوط للسرخسي،جلد11،صفحہ256،مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ ،بیروت)

   علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ردالمحتار میں لکھتے ہیں:”قالوا: لا بأس بأكل الدجاج لأنه يخلط ولا يتغير لحمه. وروي أنه عليه الصلاة والسلام كان يأكل الدجاج، وما روي أن الدجاجة تحبس ثلاثة أيام ثم تذبح فذلك على سبيل التنزه “ترجمہ: علماء فرماتے ہیں :مرغی کھانے میں کوئی حرج نہیں ؛کیونکہ وہ  اپنی خوراک میں مختلف چیزیں ملاتی ہے اور اس کا گوشت متغیر نہیں ہوتا ۔اور  روایت کیا گیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مرغی کھایا کرتے تھے ۔اور  جو روایت کیاگیا ہے کہ مرغی کو تین دن بند کرنے کے بعد ذبح کیا جائے تو یہ برسبیل احتیاط ہے۔(ردالمحتار، کتاب الحظر والاباحۃ،جلد9،صفحہ563، مطبوعہ کوئٹہ)

   جد الممتار میں ہے:”الاصل عندہ ان ما یخلط النجاسۃ بشئ آخر کالدجاج لا باس بہ “ترجمہ: امام اعظم کے نزدیک قاعدہ یہ ہے کہ جو نجاست کے ساتھ دوسری چیزیں  ملاکر کھائے جیسے مرغی تو اس (کے کھانے) میں کوئی حرج نہیں ہے۔(جد الممتار،کتاب الذبائح،ج6،ص440،مکتبۃ المدینۃ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم