Ghair Muslim Ke Restaurant se Vegetable Pizza Lena Kaisa ?

غیر مسلم کے ریسٹورنٹ سے ویج پیزا لینا

مجیب: ابو رجا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1361

تاریخ اجراء:       10رجب المرجب1444 ھ/02فروری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   غیر مسلم کے ریسٹورنٹ  سے ویج پیزا لینے کا کیا شرعی حکم ہےکیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک ہی برتن میں بناتے ہوں۔؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیان کردہ صورت میں جب یقین کے ساتھ اس کا ناپاک ہونا معلوم نہیں ہےتو  غیر مسلم ریسٹورنٹ سے ویج پیزا لینا شرعاً جائز ہے  کہ مشہور قاعدہ ہے "الیقین لایزول بالشک"ترجمہ:یقین ،شک کے ساتھ زائل نہیں ہوتا۔(فتاوی ہندیہ،ج 1،ص 47،دار الفکر،بیروت)

   اب ویج پیزاجن چیزوں سے بنا،وہ سب اولا یقینی طورپرپاک  وحلال تھیں، بعدمیں  ان کاناپاک یاحرام ہونا مشکوک ہے ۔لہذاجوپہلے یقینی طہارت تھی وہ اس شک کی وجہ سے زائل نہیں ہوگی اورویج پیزاپاک وحلال ہی رہے گا،جب تک کہ اس کے ناپاک  یاحرام ہونے کاایسایقین نہ ہوجائے کہ جوپاکی وحلت والے یقین کوختم کردے۔ہاں  البتہ!کفارکی بے احتیاطی کے باعث بچنا بہتر ہے۔

   فتاوی رضویہ میں ہے " کسی شے کا محل احتیاط سے دور یا کسی قوم کا بے احتیاط وشعور اور پروائے نجاست وحرمت سے مہجور ہونا اسے مستلزم نہیں کہ وہ شے یا اُس قوم کی استعمالی خواہ بنائی ہوئی چیزیں مطلقاً ناپاک یا حرام وممنوع قرار پائیں کہ اس سے اگر یقین ہُوا تو اُن کی بے احتیاطی پر اور بے احتیاطی مقتضی وقوع دائم نہیں پھر نفس شے میں سو اظنون وخیالات کے کیا باقی رہا جنہیں امثال مقام میں شرع مطہر لحاظ سے ساقط فرماچکی۔۔۔۔ کافروں کے پاجامے مشرکوں کے برتن اُن کے پکائے کھانے بچّوں کے ہاتھ پاؤں وغیر ذٰلک وہ مقامات جہاں اس قدر غلبہ وکثرت و وفورو شدّت سے نجاست کا جوش کہ اکثر اوقات وغالب احوال تلوث وتنجس جس کے سبب اگر طہارت کی طرف ایک بار ذہن جاتا ہے تو نجاست کی جانب دس بیس دفعہ مگر از انجاکہ ہنوز ان میں کسی چیز کو بے دیکھے تحقیق طور پر ناپاک نہیں کہہ سکتے اور قلب قبول کرتا ہے کہ شاید پاک ہوں لہذا علما نے تصریح کی کہ اس پانی سے وضو اور اُس کھانے کا تناول اور اُن برتنوں کا استعمال اور ان کپڑوں میں نماز صحیح وجائز اور فاعل زنہار آثم ومستحق عقاب نہیں اور اُس غلبہ ظن کا یہی جواب عطا فرمایا کہ اکثر احوال یوں سہی پر تحقیق وتیقن تو نہیں پھر اصل طہارت کا حکم کیونکر مرتفع ہو  البتّہ باعتبار غلبہ وظہور احتراز افضل وبہتر اور فعل مکروہ تنزیہی یعنی مناسب نہیں کہ بے ضرورت ارتکاب کرے اور کیا تو کچھ حرج بھی نہیں۔"(فتاوی رضویہ، ج04،ص493-499،رضافاونڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم