Ghar Mein Mojood Bairi Ka Darakht Katna

گھر میں موجود بیری کا درخت کاٹنا

مجیب: مولانا فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-1290

تاریخ اجراء: 21رجب المرجب1445 ھ/02فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کسی شخص کے گھر میں بیری کا درخت لگاہو، تو ضرورت کے وقت اس کو کاٹ سکتے ہیں یا نہیں ؟ میں نے ایک حدیث سنی تھی کہ جو بیری کا درخت کاٹے گا،اللہ اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈالے گا۔ اس حوالے سے رہنمائی فرما دیجئے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اپنے گھروغیرہ میں موجودذاتی ملکیت کا بیری کادرخت ضرورتاً کاٹنے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ۔ آپ نے جس حدیث پاک کا ذکر کیا ہے اس مضمون کی حدیث موجود ہے البتہ   اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے شارحینِ حدیث نے یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ وعید خاص مکہ مکرمہ کے بیری کے درخت سے متعلق ہے ، اس لیے کہ حرم کے درخت وغیرہ کاٹنا ممنوع ہے یا پھر اس وعید کا تعلق مدینہ منورہ میں موجود بیری کے  درختوں کے متعلق  ہے کہ وہاں بیریاں کمیاب ہیں یا پھر وعید کا تعلق اس بیری کے درخت سے ہے جس سے مسافرین و چوپائے سایہ حاصل کرتے ہیں اور ظلماً کوئی شخص اس درخت کو کاٹ دے ۔

   مشکوٰۃ المصابیح میں حضرت عبد اللہ بن حبیش رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من قطع سدرۃ صوب اللہ راسہ فی النار۔ رواہ ابو داؤد  وقال:ھذا الحدیث مختصر یعنی : من قطع سدرۃ فی فلاۃ یستظل بھا ابن السبیل والبھائم غشما و ظلما بغیر حق یکون لھا فیھا صوب اللہ راسہ فی النار“ یعنی جو شخص بیری کاٹے اللہ اسے اوندھے منہ آگ میں ڈالے۔ اس کو امام ابو داؤد نے روایت کیا اور فرمایا:یہ حدیث مختصر ہے یعنی (مکمل حدیث اس طرح ہے)جو جنگل کی بیری کاٹے جس سے مسافر اور جانورسایہ لیتے ہوں اس کو ناحق محض ظلم و ستم سے کاٹے اللہ پاک اسے اوندھے منہ آگ میں ڈالے۔(مشکوۃ المصابیح مع مرقاۃ المفاتیح، حدیث 2970،جلد6،صفحہ 150، مطبوعہ:بیروت)

   اس حدیث کے تحت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اس سے مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ کی بیری مراد ہے، حرمِ مکہ میں تو ہر خود رو درخت کاٹنا ممنوع ہے، مدینہ منورہ میں بیریاں کمیاب ہیں، نیز اس کا سایہ ٹھنڈا و مفید ہوتا ہے اس لئے خصوصیت سے بیری کا ذکر فرمایا ۔۔۔ جنگل کی بیری رفاہِ عام کی چیز ہے جس سے انسان و حیوان فائدے اٹھاتے ہیں ،اسے ظلماً کاٹ دینا سب پر ظلم ہے ، اس لئے وہ کاٹنے والا دوزخ کا مستحق ہے، سر سے مراد سارا جسم ہے ، اس سے اشارۃً معلوم ہوا کہ بلا ضرورت مفید درخت کاٹنا ممنوع ہےاور درخت لگانا ثواب کہ جب تک لوگ اس سے فائدہ حاصل کرتے رہیں گے اسے ثواب پہنچتا رہے گا ، یہ بھی صدقۂ جاریہ ہے۔ “(مراۃ المناجیح، جلد 4،صفحہ 327۔328، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم