Haram Maal Kisi Ghareeb Ko Dena Kaisa ?

حرام مال کسی غریب کو دینا کیسا ہے ؟

مجیب: ابوالفیضان عرفان احمد مدنی

فتوی نمبر: WAT-1790

تاریخ اجراء: 15ذوالحجۃالحرام1444 ھ/4جولائی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیاحرام کاپیسہ کسی غریب  کو دے سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جو مال حرام اصلاملکیت میں نہیں آتا(مثلا رشوت ، چوری  ، غصب اورجوئے وغیرہ کے ذریعے حاصل کردہ  مال)ایسے مال کو اصل مالک تک پہنچانا ضروری ہے ، اگراس کاانتقال ہوگیاہوتواس کے ورثا کو دینا ہوگا،البتہ  اگر کسی صورت میں  نہ اصل مالک کی معلومات ہوسکے اورنہ اس کے ورثہ  کی ، تو اس مال کو بغیر ثواب کی نیّت کے شرعی فقیرکودینا ضروری ہے ۔

اورجس مال حرام پرملک خبیث حاصل ہوتی ہے جیسےسودکامال ،   توایسے مال کوابتدامیں ہی شرعی فقیرکودےسکتے ہیں، جس سے لیا ہے ،  خاص اسے واپس کرنا ہی ضروری نہیں ،، ہاں بہتر یہ ہے کہ یہ مال جس سے لیا ہے اسی کو واپس کر دے ۔

   فتاوی رضویہ میں ہے” جومال رشوت یاتغنی (گا،بجا کر )یاچوری سے حاصل کیا اس پرفرض ہے کہ جس جس سے لیا اُن پر واپس کردے، وہ نہ رہے ہوں اُن کے ورثہ کو دے، پتا نہ چلے تو فقیروں پرتصدق کرے، خریدوفروخت کسی کام میں اُس مال کالگانا حرام قطعی ہے، بغیر صورت مذکورہ کے کوئی طریقہ اس کے وبال سے سبکدوشی کانہیں۔ یہی حکم سُود وغیرہ عقودِفاسدہ کاہے  فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں جس سے لیا بالخصوص انہیں واپس کرنا فرض نہیں بلکہ اسے اختیار ہے کہ اسے واپس دے خواہ ابتداء تصدق کردے۔" )فتاوی رضویہ،جلد23،صفحہ551، رضا فاؤنڈیشن، لاہور(

   فتاوی رضویہ میں ہے”بوجہ ربا ملک خبیث وحرام ہے اوراس پر فرض ہے کہ یہ توفیر مالکان جائداد کو دے اوریہی بہترہے یاتصدق کردے۔“(فتاوی رضویہ،جلد25،صفحہ270، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم