Hazrat Ismail عليه والسلام Ke Badle Aane Wala Mendha Jannati Tha Ya Nahi ?

حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کے بدلے آنے والا مینڈھا جنتی تھا یا نہیں ؟

مجیب: ابو احمد محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-1770

تاریخ اجراء: 04ذوالحجۃالحرام1444 ھ/23جون2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   حضرت اسماعیل علیہ السلام کے فدیے کے لیے جنت سے جو مینڈھا لایا گیا تھا تو اس کے سینگ کعبہ شریف میں رکھے ہوئے تھے جو کہ فتنہ حجاج کے وقت آگ لگنے سے جل گئے تو سوال یہ ہے کہ جب وہ مینڈھا جنتی تھا تو اس کے سینگوں کو آگ کیسے جلا سکتی ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صورتِ مسئولہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے فدیہ کے طور پر لایا جانے والا مینڈھا  جنتی تھا یا نہیں، اس میں اختلاف  ہے، بعض علمائے کرام نے اسے  جنتی قرا ر دیا بعض نے  فرمایا کہ یہ ایک پہاڑی بکر اتھا جو ثبیر  پہاڑ سے اتر ا تھا اور بعض نے  یہ لکھا کہ حضرت  آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل  نے جو قربانی  کی تھی  یہ وہی مینڈھا تھا جو جنت میں چلا گیا تھا پھر حضرت   اسماعیل علیہ السلام کی جگہ  پر قربان کیا گیا لہذا اس   کا فی نفسہ  قطعی  جنتی ہونا ثابت نہیں  ہے پھر  وہ  سینگ حتمی طور پر جل گئے تھے یاغائب ہوگئے اس میں بھی اقوال موجود ہیں  البتہ  فتاوی فقیہ ملت میں ہے  کہ اگر اس کے سینگ جل گئے تھے تو ظاہر  یہی ہے  کہ وہ  ثبیر پہاڑ سے ہی  آیاتھا۔

         فتاوی فقیہ ملت میں ہے :’’جو مینڈھا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ذبح ہوا تھا اس کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ وہ جنت سے آیا تھا اور بعض کے نزدیک یہ ہے کہ وہ منجانب اللہ ثبیر پہاڑ سے اتارا گیا تھا اور اگر یہ صحیح ہے کہ یزیدی حملے کے وقت اس کی سینگ جل گئی تھی تو ظاہر یہی ہے کہ وہ ثبیر پہاڑ ہی سے آیا تھا۔( فتاوی فقیہ ملت، ج2، ص281، کتاب الخطر والاباحۃ،شبیر برادرز لاہور)

              فتاوی بریلی شریف میں ہے’’اس مینڈھے کے جنتی ہونے میں اختلاف ہے، چناں چہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جو جانور ذبح کیا گیا وہ ایک پہاڑی بکرا تھا جو "ثبیر پہاڑ"سے اترا تھا اور یہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی قول ہے تو اس صورت میں کوئی اختلاف نہیں لیکن حضرت ابن عباس و علامہ سدی اور دیگر مفسرین کے کلاموں میں یہ ہے کہ وہ جنتی مینڈھا تھا جسے بہ حکم الٰہی حضرت جبریل علیہ السلام جنت سے لے کر آئے اور یہ وہی مینڈھا تھا جس کی حضرت آدم علیہ السلام کے لڑکے "ہابیل" نے قربانی کی تھی۔ یہ مینڈھا چالیس سال تک جنت میں چرتا رہا اور پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ قربان کیا گیا مگر اس سے فی نفسہ اس کا جنتی ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ تفسیر روح البیان کی روایت کے مطابق یہ وہی مینڈھا تھا جسے حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے نے بارگاہ الہی میں پیش کیا تھا۔(تفسیر روح البیان، ج2، ص379)

   ان روایات سے اس کا جنتی ہونا ثابت نہیں ہوا تو اب اس کی سینگ کا جلنا دنیاوی چیز کا جلنا ہوا۔ بہرحال تفسیری روایات مختلف ہیں قطعی فیصلہ مشکل ہے۔(فتاوی بریلی شریف، ص364، 365، 366، ، زاویہ پبلشرز لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم