Hotel Walon Ka Mukhtalif Logon Ka Gosht Mila Kar Pakana Kaisa ?

ہوٹل  والوں کا مختلف لوگوں کا گوشت ملا کر پکا نا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Hab-0145

تاریخ اجراء:18  ذو الحجۃ الحرام 1444ھ/07 جولائی 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں  کہ عید الاضحیٰ وغیرہ کے  موقع پر کئی لوگ باربی کیو والے حضرات کو اپنے جانور کا گوشت بوٹی کباب وغیرہ بنانے کے لیے دیتے ہیں اور باربی کیو  والے مختلف لوگوں کے گوشت کو آپس میں ملادیتے ہیں، پھر کباب بوٹی تیار کرنے کے بعد سب کو وزن کے حساب سے واپس کرتے ہیں ، یعنی جس نے جتنا کلو گوشت دیا ہوتا ہے اتنا کلو اسے واپس کردیتے ہیں ، باربی کیو والے لوگ اس کی وضاحت بھی نہیں کرتے کہ ہم اس کو ملادیں گے۔کیا مختلف  لوگوں کا گوشت آپس میں ملانا اور وزن کے حساب سے ان کو دینا جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   باربی کیو بنانے والوں کا مختلف لوگوں کا دیا ہوا گوشت آپس میں ملادینا اور پکانے کے بعد  وزن کے حساب سے تقسیم کرنا شرعاً جائز نہیں،ایسی صورت میں باربی کیو والے حضرات کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ سب کا گوشت الگ الگ رکھیں اور پھر اسی کو آرڈر کے مطابق تیار کرکے دیں ،لہٰذا اگرجان بوجھ کر خود  ایک کا دیا ہوا گوشت دوسرے کے گوشت سے مکس کیا، تو اس پر تاوان لازم ہوگا یعنی یہ خود اس مخلوط گوشت کا مالک ہوجائے گا اور جن کا گوشت مکس کیا گیا، ان کو گوشت کی قیمت بطورِ تاوان دینا ہوگی اور جب تک  تاوان نہ دے دے یا مالک تاوان معاف نہ کردے ، اس  وقت تک  اس مخلوط گوشت کا استعمال اس کے لیے جائز نہیں ہوگا ،البتہ اگر  معلوم ہوجانے کے بعد بھی گوشت دینے والے  یہی پکا ہوا مخلوط گوشت لینے دینے پر راضی رہیں ،تو اب ان سے تاوان ساقط ہوجائے گا اور یہی پکا ہوا مخلوط گوشت ان کے درمیان وزن کے مطابق تقسیم کرنا، جائز ہوگا ۔

   ہاں جہاں اس طرح گوشت مکس کردینے  کا عرف و رواج ہو  اور دینے والوں کو معلوم ہو کہ یہ آپس میں ملادیتے ہیں  اور وہ اسی پر راضی رہتےہیں،یا جن لوگوں نے گوشت دیا ہے وہ ملانے کی صراحتاًاجازت دے دیں ، تو وہاں یہ شرعاً جائز ہوگا ۔

   لیکن ہمارے شہروں میں اس کے مختلف رواج ہیں، ایک بڑی تعداد میں باربی کیو والے لکھ  کرلگاتے ہیں کہ ہمارے یہاں ہر ایک کا گوشت الگ الگ بنا کر دیا جائے گا، اور جہاں ملایا جاتا ہے وہاں دینے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو معلوم ہی نہیں ہوتا،  کہ ان کا گوشت دوسرے کے گوشت کے ساتھ مکس کردیا جائے گا ،لہٰذا جو آپس میں لوگوں کا گوشت ملادیتے ہیں  وہ پہلے ہی اس کی اجازت لیں۔ گندم وغیرہ پسوانے میں مختلف لوگوں کی گندم ملا کر پیسنے اور باربی کیو گوشت ملانے میں فرق ہے ۔ ایک یہ کہ گندم ملانا روز مرہ کا معمول ہے اور گوشت ملانا سال میں ایک آدھ مرتبہ ہوتا ہے؛ دوسری بات یہ کہ گندم اکثر و بیشتر ایک جیسی ہوتی ہے ، کوئی بہت بڑا فرق نہیں ہوتا جبکہ گوشت میں بہت فرق ہوتا ہے کہ ایک شخص کا بکرا صحت مند، گوشت کی کٹائی عمدہ، چربی وغیرہ سے اچھی طرف صاف کیا ہوا، ہڈیوں کے کچرے سے خالی  ہوگا، جبکہ دوسرے کا مریل، بیمار، خراب کٹائی والا، چربی سے لتھڑا ہوا اور ہڈیوں سے بھرپور وغیرہا۔ تو گندم کی طرح یہاں سب کی رضا مندی کا ہونا مشکل ہے، اس لیے گوشت میں اجازت ہی سے کیا جائے اور بہرحال اگر عرف میں اجازت ہو ،تو شرعی اجازت ضرور حاصل ہوگی۔

   مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ باربی کیو والے لوگوں کو تکہ بوٹی کباب وغیرہ تیار کرنے کے لیے جو اپنا گوشت دیا جاتا ہے اور اس کی وہ فی کلو کے حساب سے قیمت بھی وصول کرتے ہیں ،یہ اجارہ  علی العمل ہےاور چونکہ یہ لوگ مخصوص وقت میں کسی خاص شخص کا کام کرنے کے پابند نہیں ہوتے،لہٰذا یہ حضرات اجیر مشترک ہیں اور اجیر مشترک چونکہ امین ہوتا ہے، لہٰذا اس کے پاس وہ گوشت امانت ہوتا ہے ،اگر اس کے فعل سے وہ گوشت ضائع ہوجائے ،تو اس پر تاوان لازم ہوتا ہے اور فقہائے کرام علیہم الرحمۃ اجمعین نے یہ بیان فرمایا ہے کہ مختلف لوگوں کی چیزوں کو اس طرح ملادینا کہ ان میں تمییز نہ کی جاسکے،یہ بھی  اس چیز کو ہلاک و ضائع کرنا ہے اور اس صورت میں بھی اجیر مشترک ضامن ہوگا  اور چونکہ اس کا حکم غصب والا ہے اور  غصب کے معاملے میں صحیح قول کے مطابق گوشت قیمی چیز ہے ،لہٰذا اس کا تاوان قیمت سے دینا ہوگا ،لیکن اگر کوئی ایسی جگہ ہو جہاں ان چیزوں کو آپس میں ملادینے کا عرف و رواج ہو تو دلالۃً اجازت مانی جائے گی اور مختلف اشیاء کو آپس میں ملادینا جائز ہوگا،اسی طرح جب اصل مالک صراحتاًاجازت دے دے تو یہ بھی جائز ہوگا  کہ جب دلالۃً اجازت والی صورت میں جواز کا حکم ہے،تو صراحت والی میں بدرجہ اولیٰ جواز  کا حکم ہوگا ۔

   اس کی واضح نظیر فقہائے کرام علیہم الرحمۃ اجمعین کا بیان کردہ یہ مسئلہ ہے کہ طحان(گندم پیسنے والے شخص) کے پاس مختلف لوگ آٹا پیسنے کے لیے اپنی گندم دے جاتے ہیں اور وہ لوگ ان سب کی گندم آپس میں ملاکر پیستے ہیں،پھر ان کو وزن کے حساب سے تقسیم کرتے ہیں، تو ان کا ایسا کرنا، جائز نہیں اور وہ لوگ اس طرح ضامن ہوجائیں گے، لیکن جس جگہ اس کا عرف ہو تو دلالۃً مالک کی طرف سے اجازت مانی جائے گی اور یہ ملاکر پیسنا بھی جائز ہوگا ۔

   باربی کیو والے لوگوں کو تکہ بوٹی کباب وغیرہ تیار کرنے کے لیے جو اپنا گوشت دیا جاتا ہے اور اس کی وہ فی کلو کے حساب سے قیمت بھی وصول کرتے ہیں ،یہ اجارہ علی العمل  ہے،چنانچہ اجارہ علی العمل کے متعلق تحفۃ الفقہاء اور ہدایہ  میں ہے ،واللفظ للتحفۃ:وأما الإجارة على الأعمال فكاستئجار القصار والإسكاف والصباغ وسائر من يشترط عليه العمل في سائر الأعمال “ترجمہ: اور رہا مختلف کاموں پر اجارہ،  تو اس کی مثال یہ ہے،جیسے دھوبی،موچی اور رنگریز سے اجارہ کیا جاتا ہے اور اسی طرح وہ تمام افراد جن پر کاموں میں سے کوئی کام شرط قرار دیا جائے ۔(تحفۃ الفقھاء،ج02،ص 347،مطبوعہ بیروت)( الھدایۃ مع البنایہ،ج10،ص 230،مطبوعہ بیروت)

   باربی کیو والےلوگ مخصوص وقت میں کسی خاص شخص کا کام کرنے کے پابند نہیں ہوتے،لہٰذا یہ لوگ اجیر مشترک ہیں،چنانچہ اجیر مشترک کی تعریف کے متعلق  النتف فی الفتاوٰی میں ہے :وأما الأجير المشترك فهو الذي يتقبل الأعمال من الناس مثل الصباغ والقصار ترجمہ: اور رہا اجیر مشترک ،تو یہ وہ شخص کہلاتا ہے جو مختلف لوگوں سے کاموں کو قبول کرتا ہے، جیسے رنگریز اور دھوبی۔(النتف فی الفتاوٰی،ج02،ص 561،مطبوعہ بیروت)

   اجیر مشترک کے پاس چیز امانت ہوتی ہے ،اگر اس کے فعل سے ضائع ہوجائے، تو تاوان واجب ہے ،چنانچہ  در مختار مع رد المحتار اور فتاوٰی عالمگیری میں ہے ،واللفظ للآخر:وما هلك في يده بعمله كالقصار إذا دق الثوب فتخرق أو ألقاه في النورة فاحترق أو الحمال إذا تعثر فهو ضامن عند علمائنا الثلاثة. كذا في المحيطترجمہ:اور جو مال اجیر مشترک کے ہاتھ میں اس کے اپنے عمل سے ہلاک ہوجائے جیسے دھوبی نے کپڑے کو پتھر پر مارا تو وہ پھٹ گیا یا اس کو تنور  میں ڈالا تو وہ جل گیا یا لوگوں  کا سامان اٹھانے والا گر پڑا  تو وہ ہمارے تینوں ائمہ کرام علیہم الرحمۃ اجمعین کےنزدیک ضامن ہوگا ،ایسا ہی محیط میں ہے۔  (رد المحتار،ج 9، ص 109،112،کوئٹہ)( الفتاوی الھندیۃ،ج4،ص 571،بیروت)

   بہار شریعت میں ہے : اجیر مشترک کے پاس چیز امانت ہوتی ہے، اگر ضائع ہو جائے ضمان واجب نہیں ۔۔ اجیر مشترک کے فعل سے اگر چیز ضائع ہوئی،تو تاوان واجب ہے،مثلاً: دھوبی نے کپڑا پھاڑدیا اگرچہ قصداً نہ پھاڑا ہو چاہے اُسی نے خود پھاڑا یا اُس نے دوسرے سے دھلوایا اُس نے پھاڑا بہر حال تاوان واجب ہے۔ (بھار شریعت،حصہ14،ص 156،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   قصداً ایک کا دیا ہوا گوشت دوسرے کے گوشت میں ملادینا کہ آپس میں ان کی تمییز باقی نہ رہے،یہ اس کو ہلاک و ضائع کرنا ہےاور موجب ضمان ہے ،چنانچہ  مبسوط امام محمد میں ہے :قلت: أرأيت المستودع إذا خلط الوديعة بماله أو بمال غيره أيضمن؟ قال: نعم. قلت: لم؟ قال: لأنه استهلكها حين خلطها بغيرها. ألا ترى أنه لا يَعرف ماله بعينه ولا يستخرجها منه۔۔۔ قلت: أرأيت إن كانت الوديعة حنطة فخلطها بشعير أو كانت الوديعة شعيراً فخلطها بحنطة؟ قال: إن استطاع أن يخلّص الحنطة أو الشعير فيرده على صاحبه فلا ضمان عليه، فإن لم يستطع أن يخفصه فهو ضامن؛ لأن هذا استهلاك. قال: أرأيت لو كانت الوديعة سمناً فخلطه بزيت، أو كانت ضرباً  من الأدهان فخلطها بدهن آخر، أو كانت دقيقاً فخلطه بدقيق آخر، ألم يكن ضامناً، ولا يستطيع أن يخلّص بعضه من بعض؟ قلت: بلى ترجمہ:میں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں عرض کی کہ آپ اس امین کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو امانت والی چیز کو اپنے مال یا کسی دوسرے کے مال کے ساتھ ملادے ،تو کیا وہ ضامن ہوگا ؟تو آپ نے ارشاد فرمایا :ہاں ،تو میں نے عرض کی کیوں ضامن ہوگا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ جب امین نے امانت والی چیز کو اس کے علاوہ چیزوں کے ساتھ ملایا تو اس کو ہلاک کردیا ،کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس کا مال بعینہٖ پہچاننا ممکن نہیں اور نہ وہ امانت والی چیز کو اس سے نکال سکتا ہے ،میں نے عرض کی کہ اگر گندم امانت ہو تو اس نے اس کو جو کے ساتھ ملادیا یا جو امانت تھی ،اس نے اس کو گندم کے ساتھ ملادیا ،تواس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ اگر گندم یا جو کو آپس میں الگ الگ کرنا، ممکن ہو ،تو وہ ان کے مالک کو لوٹادی جائے گی  اور اس پر کوئی ضمان نہ ہوگا اور اگر ان کو الگ الگ کرنا، ممکن نہ ہو، تو وہ ضامن ہوگا، کیونکہ یہ بھی اس کو ہلاک کرنا ہے ،امام محمد علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں،میں نے عرض کی آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں کہ اگر امانت گھی ہو اور یہ اس کو زیتون کے تیل کے ساتھ ملادے یا مختلف تیلوں کی اقسام امانت ہوں ،یہ اس کو دوسرے تیل کے ساتھ ملادے یا آٹا امانت ہو تو یہ اس کو دوسرے آٹے کےساتھ ملادے، تو کیا وہ ضامن نہیں ہوگا ؟حالانکہ وہ ایک کو دوسرے سے الگ کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا ،تو فرمایا :کیوں نہیں ۔ (الاصل للامام محمد ،ج08،ص 434،مطبوعہ بیروت)

   اس طرح امانت کو ہلاک کردینے کی صورت میں غصب کے احکام جاری ہوں گے ،چنانچہ  بہار شریعت میں ہے : بعض ایسی صورتیں بھی ہیں کہ ا گرچہ وہ غصب نہیں ہیں، مگر ان میں غصب کا حکم جاری ہوتا ہے یعنی ضمان کا حکم دیا جاتا ہے، اس وجہ سے ان کو بھی غصب سے تعبیر کیا جاتا ہے، مثلاً: مودَع نے ودیعت سے انکار کر دیا یا ہلاک کر دیا کہ یہاں تاوان لازم ہے۔ (بھار شریعت،حصہ 15،ص 209،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   مختلف لوگوں کے گوشت کو اس طرح مکس کردینے سے یہ خود اس کا مالک ہوجائے گا اور تاوان کی ادائیگی یا مالک کے تاوان معاف کردینے سے قبل اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا ،چنانچہ در مختار میں ہے :(وكذا لو خلطها المودع) بجنسها أو لغيره (بماله) أو مال آخر (بغير إذن) المالك (بحيث لا تتميز) (ضمنها) لاستهلاكه بالخلط لكن لا يباح تناولها قبل أداء الضمان وصح الابراء ترجمہ:اور اسی طرح اگر امین نے مالک کی اجازت کے بغیر  امانت والی چیز کو اس کی جنس کے ساتھ یا دوسرے کے مال کو اپنے مال یا کسی دوسرے کے مال  کے ساتھ اس طرح  ملادیا  کہ ان کو الگ الگ نہ کیا جاسکے ، تو وہ اس کا ضامن ہوگا ،کیونکہ اس نے ان کو ملاکر ہلاک کردیا ،لیکن ضمان کی ادائیگی سے پہلے اس کو استعمال کرنا، جائز نہیں ہوگا اور مالک کا معاف کردینا صحیح ہے ۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے :(قوله لاستهلاكه) وإذا ضمنها ملكها، ولا تباح له قبل أداء الضمان، ولا سبيل للمالك عليها عند أبي حنيفة ولو أبرأه سقط حقه من العين والدين. بحر ترجمہ:شارح علیہ الرحمۃ کا قول اس کو ہلاک کردینے کے سبباور جب وہ اس کا ضامن ہوگیا، تو وہ اس کا مالک ہوگیا اور ضمان کی ادائیگی سے پہلے اس کے لیے وہ چیز مباح نہیں ہے اور امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے نزدیک مالک کے لیے اب اس چیز میں کوئی حق باقی نہ رہا اور اگر مالک نے اس کو ضمان سے بری کردیا ،تو مالک کا حق عین و دین دونوں سے ساقط ہوجائے گا ۔(رد المحتار علی الدر المختار،ج 08،ص 536،کوئٹہ)

   قیمی چیز کا تاوان قیمت سے  دینا ہوگا ،چنانچہ  در مختار میں ہے :و تجب     القیمۃ    فی القیمی    یوم  غصبہ اجماعاترجمہ:اور قیمی شے میں غصب کے دن کی قیمت بطور تاوان واجب ہوگی،اس پر اجماع ہے ۔ ( الدر المختار مع رد المحتار ،ج 09،ص 307،کوئٹہ)

   غصب کے معاملے میں صحیح قول کے مطابق گوشت بھی قیمی شے ہے ،چنانچہ قیمی اشیاء کے بیان کے تحت  در مختار و رد المحتار میں ہے :(واللحم ولو نیئا )ھذا ھو الصحیح و المطبوخ بالاجماع ترجمہ:اور گوشت بھی قیمی شے ہے، اگرچہ وہ کچا ہو۔ یہی صحیح ہے اور پکا ہوا گوشت بالاجماع قیمی ہے ۔( الدر المختار مع رد المحتار ،ج 09،ص 307،مطبوعہ کوئٹہ)

   اگر  معلوم ہوجانے کے بعد بھی گوشت دینے والے  یہی پکا ہوا مخلوط گوشت لینے دینے پر راضی رہیں ،تو اب ان سے تاوان ساقط ہوجائے گا اور یہی پکا ہوا مخلوط گوشت ان کے درمیان وزن کے مطابق تقسیم کرنا ،جائز ہوگا ،چنانچہ رد المحتار  اور مجمع الضمانات میں ہے،واللفظ للرد :دفع رجلان لرجل دراهم يتصدق بها عن زكاتهما فخلطها ثم دفعها ضمن إلا إذا جدد الإذن أو أجاز المالكان أو وجد دلالة الإذن بالخلط كما جرت العادة بالإذن من أرباب الحنطة بخلط ثمن الغلات، وكذا الطحان ضمن إذا خلط حنطة الناس إلا في موضع يكون مأذونا بالخلط عرفا ترجمہ:دو آدمیوں نے کسی شخص کو دراہم دئیے، تاکہ وہ ان کو ان دونوں کی زکاۃ کی مد میں  صدقہ کردے ،تو اس نے ان کو ملادیا ،پھر آگے ادا کیے، تو وہ ضامن ہوگا ،ہاں اگر دوبارہ اجازت لے لی ہو یا مالکوں نے اس کو جائز قرار دیا  ہو یا کسی طرح ان دراہم کو آپس میں ملانے کی دلالۃً اجازت پائی گئی ہو، تو اب ضامن نہیں ہوگا ،جیسا کہ اس بات پر عادت جاری ہے کہ گندم کے مالکان کی طرف  سے مختلف غلوں کا ثمن ملانے کی اجازت ہوتی ہے اور اسی طرح گندم پیسنے والے کا معاملہ ہے کہ جب وہ مختلف لوگوں کی گندم کو آپس میں ملادے، تو ضامن ہوگا ،ہاں اگر کوئی ایسی جگہ ہو جہاں آٹا  پیسنے والے کو عرف کی وجہ سے ملانے کی اجازت ہوتی ہے، تو ملانا، جائز ہوگا ۔(رد المحتار ،ج03،ص 378،مطبوعہ کوئٹہ)( مجمع الضمانات،ج 01،ص 51،مطبوعہ بیروت)

   جہاں گوشت کو مکس کردینے کا عرف و رواج ہو، تو مالک کی طرف سے دلالۃً اجازت مانی جائے گی اور ان کو آپس میں ملادینا جائز ہوگا،چنانچہ بحر الرائق میں ہے :رجلان دفع كل واحد منهما زكاة ماله إلى رجل ليؤدي عنه فخلط مالهما ثم تصدق ضمن الوكيل وكذا لو كان في يد رجل أوقاف مختلفة فخلط إنزال الأوقاف وكذلك البياع والسمسار والطحان إلا في موضع يكون الطحان مأذونا بالخلط عرفا “ترجمہ:دو آدمیوں نے اپنے مال کی زکاۃ کسی شخص کو دی تاکہ وہ ان کی طرف سے ادا کردے،تو اس نے ان کا مال آپس میں ملادیا، پھر صدقہ کردیا، تو وکیل ضامن ہوگا اور اسی طرح حکم ہے اس صورت کا کہ اگر کسی شخص کے قبضے میں مختلف اوقاف ہوں ،تو وہ ان کی آمدنیاں آپس میں ملادے اور اسی طرح  تاجر ، دلال اور آٹا پیسنے والے کا بھی حکم ہے ،ہاں اگر کوئی ایسی جگہ ہو جہاں آٹا پیسنے والے کو عرف کی وجہ سے ملانے کی اجازت ہوتی ہے، تو ملانا ، جائز ہوگا ۔(البحر الرائق،ج02،ص 369،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم