Ilm e Ladunni Ki Dua Karna Kaisa?

علم لدنی کی دعا کرنا کیسا؟

مجیب:محمد ساجد  عطاری

مصدق:مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Jtl-0657

تاریخ اجراء:19جمادی الاولی1444ھ/14د سمبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ علم لدنی کے لیے دعا کرنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال کا جواب جاننے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ علم لدنی کیا ہے ؟ اور یہ کیسے حاصل ہوتا ہے ؟ چنانچہ اس حوالے سے علمائے کرام  نے جو لکھا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ

   علم لدنی وہ خاص علم ہے ،جو انسان کو بغیر کسی واسطے کے محض اللہ تعالی کی طرف سے اور اس کی خصوصی عطا سے حاصل ہوبالخصوص باطنی امور، اشیاء کی حقائق اور اللہ تعالی کی ذات، صفات اور  افعال سے متعلق  علوم واسرار وغیرہ  ۔کسی انسان کے سکھانے سے جو علم حاصل ہو ،وہ علم لدنی نہیں ، بلکہ علم لدنی اسی کو کہیں گے جو تحصیل علم کے معروف اسباب کے بغیر  محض اللہ تعالی کی عطا سے حاصل ہوا ہو ۔اور اس کی بہت قسمیں و صورتیں ہیں ،جیسے  وحی ، الہام ، کشف  اور فراست  وغیرہ۔وحی کا معاملہ انبیائےکرام کے ساتھ خاص ہے اور الہام عموماً اولیائے کرام کو ہوتا ہے۔ کشف و فراست و غیرہ مومنین کو ان کے ایمان  کی کیفیت کے مطابق نصیب ہوتا ہے۔

   یہ علم لدنی کی مختصر تشریح ہے ۔ اور جہاں تک اس کے متعلق دعا کرنے کا سوال ہے، توچونکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے عطا ہونے والی ایک خصوصی رحمت ہے، اس لیے اس  کے لیے دعا کرنا  بھی جائز ہے جیسے کوئی شخص اولیاء و  مقرب بندوں میں شمار ہونے کی دعا کرسکتا ہے، حالانکہ ولایت کا رتبہ مل جانا  بھی محض اللہ تعالی کی عطا سے ہی حاصل ہوتا ہے۔علاوہ ازیں  حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے مروی ہونے والی بعض دعاؤں اور علماء کی طرف سے بیان کردہ  تشریحات سے بھی  یہ واضح ہوتا ہے کہ اس طرح کے علوم کی دعا کرنا ،جائز ہے۔

   یہ واضح رہے کہ جو شخص اپنے علم پر عمل کرتا ہے،  اور گناہوں و دنیاوی گندگیوں سے اپنے دل کوجس قدرزیادہ   پاک صاف کر تا ہے، اس قدر زیادہ  یہ علوم لدنیہ اس کے دل پر منکشف ہونے کا امکان  ہوتا ہے ، لہذا جوشخص  ان علوم کا طلبگار ہو اسے چاہیے کہ وہ  دعا کے ساتھ ساتھ ان باتوں پر عمل کرے۔

   تفسیر کبیر میں ہے : ”المسألة الثالثة: قوله:﴿وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا﴾يفيد أن تلك العلوم حصلت عنده من عند اللہ من غير واسطة، والصوفية سموا العلوم الحاصلة بطريق المكاشفات العلوم اللدنية “ترجمہ: اللہ تعالی کا یہ فرمان کہ” اور  ہم نے اسے اپنا علم لدنی عطا کیا  اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ علوم حضرت خضر علیہ السلام کو اللہ تعالی کی طرف سے بغیر واسطے کے حاصل ہوئے تھے اور صوفیائے کرام ان علوم کو جو مکاشفات کے ذریعے حاصل ہوں ، علوم لدنی کہتے ہیں۔( التفسير الكبير، جلد21، صفحہ 482، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

   امام غزالی لکھتے ہیں:”كل علم من لدنه ولكن بعضها بوسائط تعليم الخلق فلا يسمى ذلك علما لدنيا بل اللدني الذي ينفتح في سر القلب من غير سبب مألوف من خارج “ترجمہ: یوں تو ہر علم اللہ تعالی کی طرف سےملتا ہے،لیکن بعض علوم مخلوق کے سکھانے سےحا صل  ہوتے ہیں، توایسے علم کو علم لدنی نہیں کہتے، بلکہ علم لدنی تو وہ ہوتا ہے جس کاظہور کسی خارجی معروف سبب کے بغیر ہی قلب پر ہوجاتاہے۔   (إحياء علوم الدين، جلد3، صفحہ 24، دار المعرفة ، بيروت)

   مشہور محدث حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں : ” والعلم نور في قلب المؤمن مقتبس من مصابيح مشكاة النبوة من الأقوال المحمدية، والأفعال الأحمدية، والأحوال المحمودية يهتدى به إلى اللہ وصفاته وأفعاله وأحكامه، فإن حصل بواسطة البشر فهو كسبي، وإلا فهو العلم اللدني المنقسم إلى الوحي والإلهام والفراسة“ترجمہ: علم مومن کے دل میں آنے والا وہ نور ہے، جو اقوال محمدیہ ، افعال احمدیہ اور احوال محمودیہ کے نبوی طاق میں رکھے ہوئے چراغوں سے حاصل ہوتا ہے اور اس کے ذریعے آدمی اللہ ، اس کی صفات،اس کے افعال اور اس کے احکام کی ہدایت پاتا ہے۔ پھر یہ علم / نور  اگر بشر کے واسطے سے حاصل ہو، تو اسے کسبی کہتے ہیں اور اگر بشر کا واسطہ نہ ہو، توپھر یہ علم لدنی کہلاتا ہے۔ علم لدنی کی مزید قسمیں ہیں، جو یہ ہیں ، وحی ، الہام اور فراست۔( مرقاة المفاتيح، جلد1، صفحہ 280، دار الفكر، بيروت)

   مفتی احمد یا رخان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں :” علم نور الٰہی ہے ،جو بندہ کو عطا ہوتا ہے،اگر بشر سے حاصل ہو،تو کسبی کہلاتا ہے ورنہ لدنی۔لدنی کی بہت سی قسمیں ہیں:وحی،الہام،فراست وغیرہ۔وحی انبیاء سے خاص ہے،الہام اولیاء اﷲ سے،فراست ہر مؤمن کو بقدر ایمان نصیب ہوتی ہے۔فراست و الہام وہی معتبر ہے ،جو خلاف شرع نہ ہو،خلاف شرع ہو ،تو وسوسہ ہے۔(مراۃ المناجیح، جلد1، صفحہ182، قادری پبلشرز، لاھور)

   مشکوٰۃ میں بحوالہ ترمذی و ابن ماجہ یہ حدیث پاک ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام یوں دعا کیا کرتے تھے: ” اللهم انفعني بما علمتني وعلمني ما ينفعني وزدني علما “ترجمہ: اے اللہ! جو تو نے مجھے علم عطا کیا مجھے اس علم سے نفع عطا فرما اور مجھے وہ علم عطا فرما جو مجھے نفع دے،  اور میرے علم میں اضافہ فرما۔

   حدیث کے الفاظ ” زدني علما “ کی شرح میں حضرت علامہ علی قاری لکھتے ہیں : ” أي لدنيا يتعلق بذاتك وأسمائك وصفاتك “یعنی مجھے لدنی علم عطا فرما جس کا تعلق تیری ذات، تیرے اسماء اور تیری صفات سے ہے ۔(مرقاة المفاتيح، جلد5، صفحہ 1728، دار الفکر، بیروت)

   اسی بریقہ محمودیہ شرح طریقہ محمدیہ میں ہے : ” كان  صلى اللہ تعالى عليه وسلم  مع علو رتبته يدعو كثيرا بقوله اللهم أرنا الأشياء كما هي» ، وهي العلم اللدني الذي هو نتيجة الخدمة وثمرة الرياضة “ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بلند رتبہ ہونے کے باوجود اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے:” اے اللہ!ہمیں اشیاء اس طرح دکھا، جیسے وہ  حقیقت میں ہیں۔“ اور یہ علم لدنی ہے جو خدمت کا نتیجہ اور ریاضت کا ثمرہ ہوتا ہے۔( بريقة محمودية ، جلد2، صفحہ 33، مطبعة الحلبي)

   علامہ مناوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ حدیث پاک کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”(ومن تعلم فعمل علمه اللہ ما لم يعلم) أي العلم اللدني الذي هو موهبة من اللہ ۔۔۔۔۔ وقد ثبت أن دقائق علوم الصوفية منح إلهية ومواهب اختصاصية لا تنال بمعتاد الطلب فلزم مراعاة وجه تحصيل ذلك وهو ثلاث: الأول العمل بما علم على قدر الاستطاعة. الثاني اللجأ إلى اللہ على قدر الهمة. الثالث إطلاق النظر في المعاني حال الرجوع لأهل السنة ليحصل الفهم وينتفي الخطأ ويتيسر الفتح وقد أشار لذلك الجنيد بقوله: ما أخذنا التصوف عن القيل والقال والمراء والجدال بل عن الجوع والسهر ولزوم الأعمال “ترجمہ: ”جس نے علم سیکھا اور پھر عمل کیا، تو اللہ تعالی اسے وہ علم عطا فرمائے گا، جسے وہ پہلے نہیں جانتا تھا۔“(الحدیث) یعنی علم لدنی عطا  فرمائے گا ،جو اللہ تعالی کی طرف سے ایک عطیہ ہے۔اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ صوفیاء کے علوم دقیقہ ، عطیہ الہیہ اور خصوصی عطائیں ہیں،جنہیں معتاد طریقوں  سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، لہذا اس کےحصول کے خصوصی طریقے کی مراعات کرنا لازم ہوتا ہے  اور اس طریقے میں یہ تین چیزیں ہیں ۔(1) جو علم حاصل کیا ، حسب استطاعت اس پر عمل   کرنا۔ (2) ہمت کے مطابق اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا ۔ (3) معانی میں اہل سنت کے طریق کے مطابق غور و فکر کرنا ،تاکہ اسے فہم حاصل ہو، خطا دور ہو اور فتح(اسرار کا انکشاف ) اس کے لیے آسان ہو۔ اسی طرف حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنے اس قول سے اشارہ کیا ہے کہ : ہم نے تصوف قیل و قال اور بحث و مباحثہ  سے حاصل نہیں کیا، بلکہ بھوک ، راتوں کو جاگنے  اور اعمال کی پابندی سے حاصل کیا ہے ۔ (فيض القدير، جلد4، صفحہ 388، المكتبة التجارية الكبرى ، مصر)

   سوال:کیا علم لدنی کی دعا کرنا اس اعتبار سے ممنوع نہیں کہ  یہ محال  چیز کی دعا ہے، جوممنوع ہوتی ہے۔

   جواب:اوپر جو عبارات ذکر کی گئی ہیں ،ان  سے یہ بات  واضح  ہو جاتی ہے کہ علمائے کرام نے علوم لدنیہ کو محالات عادیہ میں شمار نہیں کیا ، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس کی مختلف صورتیں ہیں اور فراست و الہام وغیرہ  کی کچھ صورتیں عام مسلمانوں کو بھی اپنے اپنے ایمان کی قوت  و کیفیت کے مطابق نصیب ہوتی ہیں۔ اور تقوی و پرہیز گاری اور علم پر عمل کے اعتبار سے جس کی حالت جتنی زیادہ بہتر ہوتی ہے، اس  قدر زیادہ امکان ہوتا ہے کہ اسے اللہ تعالی کا فضل نصیب ہو جائے اور اس کی عطا سے علوم لدنیہ کا دروازہ اس پر کھل جائے۔ لہذا   مطلقا علم لدنی کے متعلق دعا کرنے کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ امرِ  محال کی دعا  ہے جو کہ ممنوع ہے، اگر ایسا ہو ،تو پھر ولایت کی دعا کرنا بھی منع ہو جائے ،حالانکہ کوئی بھی اس کی ممانعت کا قائل نہیں ۔

   خلافِ عادت امور کی دعا کرنا جو ممنوع ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کو یوں طلب کرنا کہ وہ چیز ظاہری و عادی اسباب کے بغیر حاصل ہو جائے ،جیسے کوئی یوں دعا کرے کہ سامنے رکھا پانی خود ہی میرے منہ میں آجائے یا بغیر درختوں کے پھل اگ جائے یا بغیر ازدواجی تعلقات قائم کیے مجھے اولاد مل جائے  وغیرہ۔اس طرح کی دعا کرنا   اللہ تعالی کے نظام قدرت اور اس کی عادت کے  بر خلاف  طریقےپر کسی چیز کا مطالبہ کرنا ہے، جو خلاف ادب ہےاور دعا میں حد سےبڑھنا ہے۔ ایسی دعا صرف انبیائے کرام یا اکابر اولیائے کرام کے لیے روا ہوتی ہے کہ وہ معجزہ یا کرامت کا اظہار کرتے وقت اس طرح کی دعا کرسکتے ہیں اور ان کے حق میں یہ بے ادبی نہیں ۔

   علامہ محمد بن بہادر زرکشی علیہ الرحمۃ(متوفی :794 ھ)اپنی کتاب ”الازھیۃ فی احکام الادعیۃ “ میں ممنوعہ دعائیں بیان کرتے ہوئے  لکھتے ہیں : ” ربط المسببات بالاسباب فلا يطلب احد من ذوي الالباب وقوع المسبب من غير سبب لما فيه من سوء الادب“ترجمہ:  مسببات کو اسباب سے جوڑدیا ہےلہذا کسی اہل عقل کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ سبب  کے بغیر کسی مسبب کا  واقع ہوناطلب کرے کیونکہ اس میں بے ادبی ہے۔(الازهية في احکام  الادعية ، ص145، دار الفرقان ، مصر)

   علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نقل کرتے ہیں : ” من المحرم أن يسأل المستحيلات العادية وليس نبيا ولا وليا في الحال: كسؤال الاستغناء عن التنفس. . . . . أو ولدا من غير جماع، أو ثمارا من غير أشجارالخ.“ترجمہ: جو دعا مانگنا جائز نہیں اس میں سے یہ بھی ہے کہ محالات عادیہ کی دعا کرے ،حالانکہ نہ وہ نبی ہے اور نہ فی الحال وہ ولی ہے، جیسے یہ مانگنا کہ مجھے  ہوا میں  سانس لینے کی حاجت نہ رہے یایہ دعا کرنا کہ  بغیر صحبت کیے اولاد حاصل ہو جائے یا  یہ طلب کرنا کہ بغیر درختوں کے پھل مل جائیں۔ الخ (رد المحتار، جلد1، صفحہ 522، دار الفکر، بیروت)

   امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ” اگرچہ محالِ عقلی کے سوا کہ اصلا ً صلاحیتِ قدرت نہیں رکھتا، سب کچھ زیر قدرتِ الٰہیہ داخل ہے۔ مگر خلافِ عادت بات کی خواستگاری (درخواست)صرف حضرات انبیاء واولیاء علیہم الصلاۃ والسلام کو وقت اِظہار معجزہ وکرامت بغرضِ ارشاد وہدایت واِتمامِ حُجَّت (لوگوں کی ہدایت اور ان پر حجت قائم کرنے کے لیے) باذن اللہ تعالیٰ جائز ہے۔ اوروں کا عالَمِ اسباب میں ہو کر ایسی بات مانگنا اپنی حد سے بڑھنا اور جہل وسفاہت میں پڑناہے۔( کَبَاسِطِ کَفَّیۡہِ اِلَی الْمَآءِ لِیَبْلُغَ فَاہُ وَمَا ہُوَ بِبَالِغِہٖ) جیسے کوئی اپنے ہاتھ پھیلائے بیٹھا ہے کہ پانی خود اس کے منہ میں پہنچ جائے اور ہر گز نہ پہنچے گا۔(فضائل دعا، 175و176، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم