Ilm e Najoom Ki Tareef, Iqsam Aur Hukum Neez Ilm e Touqeet Ki Hesiyat Kya Hai?

علم نجوم کی تعریف،اقسام ، حکم نیز علم توقیت کی حیثیت کیا ہے؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-7012

تاریخ اجراء:10رمضان المبارک1444ھ01اپریل 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ

   (1)علم نجوم کی تعریف کیا ہے؟اور کیا اس کا تعلق ستاروں کے ساتھ ہے؟ اگر ہے، تو ان کی تخلیق کے کیا مقاصد ہیں؟

   (2) علم نجوم کی کتنی قسمیں ہیں، مع التفصیل بیان کریں؟

   (3)علم توقیت حاصل کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے، اورا گر سمت قبلہ، اوقات نماز، زکوۃ و حج معلوم کرنے کے لیے علم توقیت کے ساتھ علم نجوم کا بھی سہارا لینا پڑے، تو اس مقصد کے لیے علم نجوم کا حاصل کرنا کیسا؟

   (4) تعریف سے ظاہر کہ اس علم کا تعلق تشکلاتِ فلکیہ و نجوم کے ساتھ ہے، جن سے حوادثات پر استدلال کیا جاتا ہے، تو تشکلاتِ فلکیہ و گردشِ نجوم کی ان حوادثات کے لیے کیا حیثیت ہو گی؟

   (5) حوادثات جاننے کےلیے اس علم کو حاصل کرنااور اس کو استعمال کرنا کیسا؟ ہمارے معاشرے میں اس علم کے حامل افراد نجومی کہلاتے ہیں، اور وہ حساب لگا کر دوسروں کو مستقبل کے واقعات بتاتے ہیں، اس بارے میں شرع مطہرہ کیا فرماتی ہے؟

   (6) اور ان نجومیوں سے قسمت و مستقبل کا حال معلوم کرنا کیسا؟

   (7) آج کل اخبارات میں اس عنوان سے ’’آپ کا ہفتہ کیسا گزرے گا‘‘ کالم چھپتے ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟

   (8) فال دیکھنا دکھانا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)علم نجوم وہ علم ہے، جس کے ذریعے تشکلاتِ فلکیہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے زمینی حوادثات پر استدلال کی کیفیت کو جانا جاتا ہے اور اس علم کا ستاروں کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، اور ستاروں کی تخلیق کے تین بڑے مقاصد بخاری شریف کی ایک روایت  میں بیان فرمائے گئے ہیں، جن کا ذکر قرآن عظیم میں بھی موجود ہے اور وہ یہ ہیں:

   (۱) انہیں آسمان کی زینت بنایا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ لَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیۡحَترجمہ :اور بے شک ہم نے نیچے کے آسمان کو چراغوں سے آراستہ کیا ۔(پارہ 29، سورۃ الملک، آیت 5)

   (۲) انہیں شیاطین کی مار بنایا۔ ارشاد باری تعالی ہے:﴿ وَ جَعَلْنٰہَا رُجُوۡمًا لِّلشَّیٰطِیۡنِ ترجمہ : اور انہیں شیطانوں کے لیے مار کیا۔(پارہ 29، سورۃ الملک، آیت 5)

   (۳)اورعلامات  بنایا، جن سے ہدایت لی جا سکے۔ قرآن عظیم میں ہے﴿وَ بِالنَّجْمِ ھُمْ یَھْتَدُوْنَ ترجمہ :اور علامتیں اور ستارے سے وہ راہ پاتے ہیں۔(پارہ 14، سورۃ النحل، آیت 16)

   بخاری شریف میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:’’خلق ھذہ النجوم لثلاث، جعلھا زینۃً للسمآء، ورجوماً للشیاطین، وعلامات یھتدیٰ بھا‘‘ ترجمہ: ان ستاروں کو تین (بڑے) مقاصد کے لیے پیدا کیا گیا، انہیں آسمان کی زینت بنایا، شیاطین کے لیے مار بنایا، اور نشانیاں بنایا جن سے ہدایت لی جائے۔(صحیح البخاری، کتاب بدء الخلق، باب فی النجوم، جلد 1، صفحہ 454، مطبوعہ کراچی)

   علم نجوم کی تعریف رد المحتار میں یوں ہے:’’هو علم يعرف به الاستدلال بالتشكلات الفلكية على الحوادث السفلية‘‘ ترجمہ: وہ علم ہے جس کے ذریعے تشکلاتِ فلکیہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے زمینی حوادثات پر استدلال کی کیفیت کو جانا جاتا ہے۔(رد المحتارمع الدرالمختار، مقدمۃ الکتاب، جلد 1، صفحہ 110، مطبوعہ  پشاور)

   (2) علمِ نجوم کی دو قسمیں ہیں: (۱)حسابی۔ (۲)استدلالی۔

   (۱) حسابی:

   اس سے  مراد سورج چاند کے ذریعے اوقات، ماہ وسال اور عمروں کا حساب لگانا ہے اور اس پر قرآن کریم کی متعدد آیات دلالت کرتی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے:﴿ اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ ترجمہ: سورج اور چاند حساب سے ہیں۔(پارہ 27، سورۃ الرحمن، آیت 5)

   اس کے تحت تفسیر بیضاوی میں ہے:’’﴿ اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ یجریان بحساب معلوم مقدر فی بروجھما ومنازلھما، وتتسق امور الکائنات السفلیۃ وتختلف الفصول والاوقات ویعلم السنون والحساب‘‘ ترجمہ: ﴿سورج اور چاند حساب سے ہیں یہ دونوں اپنے اپنے بروج اور منازل میں معلوم و متعین حساب سے چلتے ہیں اور کائناتِ سفلیہ کے امور ان سے مرتب ہوتے، موسم اور وقت بدلتے ہیں اور زمانے اور حساب کا پتا چلتا ہے۔(تفسیر بیضاوی، سورۃا لرحمن، تحت آیت 5، جلد 5، صفحہ 170، مطبوعہ بیروت)

   اور تفسیر قرطبی میں ہے:’’ان بھما تحسب الاوقات وآجال الاعمار ولو لا اللیل والنھار والشمس والقمر لم یدر احد کیف یحسب شئیاً ‘‘ ترجمہ:  سورج اور چاند دونوں سے اوقات، زندگی کی مدت کا حساب کیا جاتا ہے اور اگر رات، دن، سورج اور چاند نہ ہوتے، تو کوئی بھی نہ جانتا کہ حساب کیسے کرنا ہے۔(تفسیر قرطبی، سورۃ الرحمن، تحت آیت 5، جلد 17، صفحہ 153، مطبوعہ قاھرہ)

   (۲) استدلالی:

   اس سے مراد ستاروں کے چلنے اور افلاک کے حرکت کرنے سے اللہ عزوجل کی قضا و تدبیر کے مطابق  پیدا ہونے والے امور پر استدلال کرنا ہے۔

   رد المحتار میں ہے:’’ان علم النجوم فی نفسہ حسن غیر مذموم، اذ ھو قسمان: حسابی وانہ حق وقد نطق بہ الکتاب، قال اللہ تعالی: ﴿ اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ ای سیرھما بحساب واستدلالی بسیر النجوم وحرکۃ الافلاک علی الحوادث بقضاء اللہ تعالی وقدرہ‘‘ ترجمہ : علم نجوم فی نفسہ اچھا علم ہے، مذموم نہیں، کہ اس کی دو قسمیں ہیں، حسابی، یہ حق ہے، اس کا بیان قرآن عظیم میں بھی ہے، اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:’’ سورج اور چاند حساب سے ہیں‘‘ یعنی ان کا چلنا ایک حساب سے ہے، دوسری قسم استدلالی ہے، جو ستاروں کے چلنے اور افلاک کے حرکت کرنے سے اللہ تعالی کی قضا و تدبیر کے مطابق پیدا ہونے والے امور پر استدلال کرنا ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، مقدمۃ الکتاب، جلد 1، صفحہ110، مطبوعہ پشاور)

   (3) علم توقیت کا حاصل کرنا فرض کفایہ ہے، یونہی علم نجوم کے ذریعے اگر سمتِ قبلہ، اوقاتِ نماز،  زکوۃ و حج معلوم کیے جائیں، تو اس علم کا حاصل کرنا بھی نہ صرف جائز، بلکہ فرض کفایہ ہے۔

   حصولِ علم توقیت کو سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک مکتوب میں علامہ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے فرض کفایہ قرار دیا ہے۔(مکاتیب ملک العلماء قلمی، حیات ملک العلماء، صفحہمطبوعہ لاھور)

   روح المعانی، الزواجر عن اقتراف الکبائر اور رسائل ابن عابدین میں علمِ نجوم کے متعلق ہے:والنظم للثانی:’’ ۔۔علم النجوم الذي يعرف بها الزوال وجهة القبلة وكم مضى وكم بقي من الوقت فانه لا اثم فيه، بل هو فرض كفاية‘‘ ترجمہ : ایسا علم نجوم جس کے ذریعے وقت زوال کی معلومات، جہت قبلہ کی تعیین، اور اس بات کی معرفت حاصل کی جائے کہ (نماز کا) کتنا وقت گزر گیا، اور کتنا باقی رہ گیا، اس میں گناہ نہیں، بلکہ یہ تو  فرض کفایہ ہے۔(الزواجر، کتاب الجنایات ، جلد 2، صفحہ 178، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

   (4)گردشِ نجوم و حرکاتِ فلکیہ، حرکاتِ نبض کی طرح علامات ہیں کہ جس طرح نبض کا اپنی معتدل چال سے ہٹنا طبیعت کے خراب ہونے میں مؤثر نہیں، بلکہ سبب و علامت ہے، یونہی گردشِ نجوم و حرکاتِ فلکیہ کو بھی غایت درجہ حوادث کے لیے علامات و سبب قرار دیا جا سکتاہے، نہ کہ ان کو حوادث میں مؤثر مانا جائے۔

   سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’تدبیر عالم سے کواکب کے متعلق کچھ نہیں کہا گیا، نہ ان کے لیے کوئی تاثیر ہے، غایت درجہ حرکات فلکیہ مثل حرکات نبض علامات ہیں، کما قال اللہ تعالی :﴿وَ عَلٰمٰتٍ     ؕوَ بِالنَّجْمِ ھُمْ یَھْتَدُوْنَ نبض کا اختلاف اعتدال سے طبیعت کے انحراف پر دلیل ہوتا ہے، مگر وہ انحراف اس کے اثر (سے) نہیں، بلکہ یہ اختلاف اس کے سبب سے ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 699،700، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   (5) ماقبل علمِ نجوم حسابی حاصل کرنے کا حکم بیان ہو چکا اور علمِ نجوم استدلالی کا حصول! تو اس کی اتنی مقدار حاصل کرنے میں حرج نہیں، جس سے وقت، جہتِ قبلہ، مہینوں اور برسوں کا حساب لگایا جا سکے، بلکہ اتنی مقدار کو تقاضائے شرعی ہے،  لیکن مقدارِ حاجت سے زائد اس کے سیکھنے سکھانے کو علماء نے حرام قرار دیا ہے۔

   فتاوی عالمگیری میں ہے:’’وعلم يجب الاجتناب عنه وهو ۔۔علم النجوم الا على قدر ما يحتاج اليه في معرفة الاوقات وطلوع الفجر والتوجه الى القبلة والهداية في الطريق‘‘ ترجمہ:ایسا علم جس سے بچنا لازم ہے، وہ ۔۔ علم نجوم ہے، مگر اتنی مقدار میں حاصل کرنا، جائز ہے، جتنی مقدار کی اوقات اور طلوع فجر  کی پہچان، سمت قبلہ کو جاننے اور راستے کی رہنمائی کے لیے حاجت ہو۔   (فتاوی عالمگیری، کتاب الکراھیۃ، جلد 5، صفحہ 378، مطبوعہ بیروت)

   خاتم المحققین علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ثم تعلم مقدار ما يعرف به مواقيت الصلاة والقبلة لا باس به وافاد ان تعلم الزائد على هذا المقدار فيه باس بل صرح في الفصول بحرمته وهو ما مشى عليه الشارح والظاهر ان المراد به القسم الثاني دون الاول‘‘ ترجمہ: پھر علم نجوم کی اتنی مقدار کا سیکھنا جس سے نمازوں کے اوقات اور قبلہ کی معرفت حاصل ہو، اس میں حرج نہیں ہے اور اس عبارت کا فائدہ یہ ہے کہ اس مقدار سے زائد سیکھنے میں قباحت ہے، بلکہ فصول (کتاب) میں حرام ہونے کی صراحت ہے اور شارح نے بھی اسی کو اپنایا ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اس سے مراد قسمِ ثانی ہے نہ کہ اول۔(رد المحتار علی الدر المختار، مقدمۃالکتاب، جلد 1، صفحہ 44، مطبوعہ بیروت)

   فتاوی مصطفویہ میں ہے:’’علماء تعلیم وتعلمِ علم نجوم فوق الحاجۃ کوحرام فرماتے ہیں، اتنی مقدارجائزبتاتے ہیں ،جس سے وقت ،جہت  قبلہ، حساب اوقات ،مہینوں اوربرسوں کاحساب معلوم ہو،اس سےزائدکوجائزنہیں بتاتے ۔۔۔ (اور) اگرکسی کاقلب محفوظ بھی رہے،علم نجوم سے مریض نہ توبھی باعتباراکثرحکم ہوناچاہئے۔‘‘(فتاوی مصطفویہ، صفحہ 432، شبیر برادرز، لاھور)

   علم نجوم کے تقاضائے شرعی سے زائد علم کے  استعمال اور دوسرے کو جواب دینے کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ  اگر کوئی شخص ان حرکاتِ نجوم و فلکیہ کو محض علامات جانے اور ذہن میں رکھتے ہوئے  کہ یہ علامات غلط بھی ثابت ہوتی ہیں،  ان کے چلنے اور جگہ تبدیل کرنے کو اللہ عزوجل کی تدبیر گردانتے ہوئے ان حرکات سے پیدا ہونے والے اثرات کو من جانب اللہ سمجھے اور  اپنے لیے علم غیب کا دعوی نہ کرے،  اپنے اخذ کردہ نتیجہ پر  نہ خود اعتماد کرے، نہ کسی کو یقین دلائے، بلکہ دوسروں کو برابر بتاتا رہے کہ یہ میں نے اپنے علم کے مطابق نتیجہ اخذ کیا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ یہ نتیجہ صحیح ہی ہو، لہذا اس پر یقین کرنا درست نہیں، تو ایسی صورت میں اسے استعمال کرنا اس کے ذریعے دوسرے کو جواب دینا جائز ہو گااور خاص اس صورت میں اس کی مثال نبض دیکھ کر مرض کا اندازہ لگانے جیسی ہو گی۔

   مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان علیہ الرحمۃ  زائد علم کے استعمال کے متعلق فرماتے ہیں :’’ہاں! اگر یہ شخص جس طرح خود جزم نہیں کرتا، دوسروں کو بھی اس سے روکے اور طرح طرح سے برابر یہ ظاہر کرتا رہے کہ یہ باعتبار ان دلائل کے حکم کیا جاتا ہے جو میں نے نظر کی اور کچھ ضرور نہیں کہ ان دلائل سے میں جس نتیجے پر پہنچا وہ صحیح ہی ہو، اس پر یقین کرنا حرام ہے، اگرچہ ہزار بار جو نجومی بتائے اس کے مطابق ہی واقع ہو، تو اس صورت میں حرام نہ ہونا چاہئے۔‘‘(فتاوی مصطفویہ، صفحہ 432، شبیر برادرز، لاھور)

   اسی تفصیل کے مطابق انبیاء  کا بتائیدِ وحی قطعی اور بعض جگہ انبیاء کو اور عمومی طور پر اولیاء کو بذریعہ الہام و فراستِ مومنانہ حکمِ خداوندی   اس علم کا استعمال فرمانا، ممکن و  ثابت ہے ،  چنانچہ  حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق قرآن پاک میں  ہے:﴿فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوۡمِ فَقَالَ اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ ترجمہ : پھر اس نے ایک نگاہ ستاروں کو دیکھا، پھر کہا: میں بیمار ہونے والا ہوں۔(پارہ 23، سورۃ الصٰفٰت، آیت 89)

   زمانہ قحط میں امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ: باران کے لیے دعا کرو اور منزل قمر کا لحاظ کر لو۔ یونہی امیر المومنین مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے منقول ہے:’’لا تسافروا والقمر فی العقرب‘‘ ترجمہ: جب چاند برج عقرب میں ہو، تو سفر نہ کرو۔‘‘( ماخوذ از فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 700، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   لیکن فی  زمانہ نجومیوں میں یہ شرائط تقریباً مفقود ہوتی ہیں، کوئی حرکات نجوم کو حوادث میں یقینی مؤثر مانتے ہیں اور ان سے حاصل ہونے والے علم کو واجب و لازم جانتے ہیں، اسی پہ اعتماد کرتے اور دوسروں کو یقین دلاتے ہیں، ان حرکات کو دیکھ کر کسی وقت، جگہ، چیز کو مسعود و منحوس کہتے ہیں، بلکہ بعض تو ڈھکے چھپے الفاظ میں  غیب کا دعوی کررہے ہوتے   ہیں، حالانکہ  یہ صورتیں ناجائز و حرام اور گناہ کی ہیں، جبکہ بعض مؤدی الی الکفر بھی ہیں۔

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’(نجومیوں کا) امور غیب پر احکام لگانا، سعد و نحس کے خرخشے اٹھانا، زائچہ کے راہ پر چلنا چلانا، اوتاد اربع، طالع رابع، عاشر، سابع پر نظر رکھنا زائلہ مائلہ کو جانچنا پرکھنا، شرعاً ہجر (ممنوع)ہے اور اعتقاد کے ساتھ ہو، تو قطعاً کفر، والعیاذ باللہ رب العالمین ‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 463، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   ایک اور مقام پہ فرمایا: ’’کواکب میں کوئی سعادت و نحوست نہیں، اگر ان کو خود مؤثر جانے، شرک ہے، اور ان سے مدد مانگے ،تو حرام، ورنہ ان کی رعایت ضرور خلاف توکل ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 224، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   (6) نجومیوں سے قسمت کا حال اور امور غیبیہ دریافت کرنے اور ستارہ شناسی کے دعویدار سے مستقبل کا حال معلوم کرنے کی مختلف صورتیں ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

   ٭ اگر اس نیت سے ہو  کہ جو کچھ یہ بتائے گا وہی حق ہے، تو یہ کفر ہے۔

   ٭ اگر اس پر یقین تو نہ ہو، لیکن رغبت و میلان کےساتھ پوچھے، تو حرام و گناہِ کبیرہ ہے۔

   ٭ اگر  نہ تو یقین ہو نہ میلان، بلکہ ویسے ہی بطورِ استہزاء کے ہو، تو بھی مکروہ ہے۔

   ٭ ہاں!اگر نجومی کو عاجز کرنا مقصود ہو تو جائز ہے، لیکن یہ جواز اس کے لیے ہے جس کا یقین حکمِ شریعت پر مستحکم ہو، ورنہ یہ نہ ہو کہ نجومی کی کوئی بات صحیح نکل آئی، تو خود ہی اپنے ایمان و یقینِ شرعی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

   نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجومیوں کے پاس جانے سے منع فرمایا۔ چنانچہ ابو داؤد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:’’من اتی کاھنا بما یقول، او اتی امراتہ حائضاً، او اتی امراتہ فی دبرھا، فقد بری مما انزل علی محمد ‘‘ ترجمہ : جو کسی نجومی کے پاس جائے، اور اس کی تصدیق کرے یا اپنی بیوی کے پاس بحالت حیض جائے یا بیوی سے دبر میں جماع کرے، تو وہ شخص اس سے بری ہو گیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتارا گیا۔   (سنن ابی داؤد، کتاب الطب، باب فی الکھان، جلد 2، صفحہ 189،مطبوعہ لاھور)

   سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’ کاہنوں اور جوتشیوں سے ہاتھ دکھا کر تقدیر کا بھلا بُرا دریافت کرنا، اگر بطور اعتقاد ہو یعنی جو یہ بتائیں حق ہے، تو کفر خالص ہے، اسی کو حدیث میں فرمایا:’’فقد کفر بما نزل علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ اور اگر بطور اعتقاد و تیقن نہ ہو، مگر میل و رغبت کے ساتھ ہو، تو  گناہ کبیرہ ہے، اسی کو حدیث میں فرمایا: ’’لم یقبل اللہ لہ صلوۃ اربعین صباحاً‘‘ ترجمہ: اللہ تعالی چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ فرمائے گا اور اگر ہزل و استہزاء ہو ،تو عبث و مکروہ حماقت ہے، ہاں! اگر بقصد تعجیز ہو، تو حرج نہیں۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 155،156، رضا فاونڈیشن، لاھور)

   اشکال:

   جب علم نجوم استدلالی مثل ِ نبض بمنزلہ علامات کے طور پر استعمال کرنا، جائز ہے، تو اب جیسے ماہر حکیم نبض دیکھ کر جو بتاتا ہے، اس کی طرف قطعی یقین تو نہیں، لیکن یقین ِ عرفی یا رغبت و میلان ہوتا ہےاور یہ جائز ہے، تو ایسے ہی علم ِ نجوم میں بھی یقینِ عرفی/ رغبت و میلان جائز ہونا چاہیے، جبکہ اسے ناجائز و حرام قرار دیا ہے ، اس فرق کی کیا وجہ ہے؟

   ازالۂ اشکال:

   علم نجوم استدلالی کسی حد تک مثلِ حرکاتِ نبض علامات تو ہیں، لیکن ان کے احکامات مختلف ہیں، کیونکہ تمام طب ظن پر مشتمل ہے، جیسا کہ بہار شریعت میں ہے:’’ علمِ طب کے قواعد و اصول ہی ظنی ہیں، لہذا یقین حاصل ہونے کی کوئی صورت نہیں۔‘‘(بھار شریعت، حصہ 16، صفحہ 506، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   اور عمومی طور پر اطباء حضرات بھی جو نبض دیکھ کر مرض کا اندازہ لگاتے ہیں، وہ ان حرکاتِ نبض کو اُس مرض کے پیدا ہونےمیں مؤثر نہیں مانتے، نہ ہی ان حرکات سے حاصل ہونے والے علم کو واجب و لازم جانتے ہیں، اور نہ غیب کا دعوی کرتے ہیں، بلکہ نبض دیکھ کر اندازہ ہونے والے مرض کی دوا دے کر اس کی شفا کو اللہ عزوجل کی عطا پر موقوف سمجھا جاتا ہے، اور اسی لیے مریض کے تندرست نہ ہونے پر دوا تبدیل کر دی جاتی ہے،جبکہ نجومیوں، کاہنوں اور ستارہ شناسوں کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے، بعض ان علامات سے استدلال کر کے غیب کا دعوی کرتےہیں، یا اس سے حاصل ہونے والے علم کو  لازم جانتے ہیں، کہ ہم نے کہہ دیا اب ایسا ہی ہو گا، انہیں خود بھی اعتماد ہوتا ہے، لہذا دوسروں کو بھی یقین دلاتے ہیں۔

   اسی طرح ان کے پاس آنے والے لوگوں کا بھی عموماً یہی اعتقاد بنا ہوتا ہے کہ یہ ستارے دیکھ کر یا اپنے مؤکلات سے معلوم کر کےقسمت کا حال بتاتے ہیں اور ان کے بتائے ہوئے احوال اور خبروں کے پورا ہونے کا انتظار کرتے ہیں، اگر پوری ہو جائیں،تو ان کے اعتقاد میں ایسی پختگی آجاتی ہے، جو آگے چل کر ایمان کی خرابی کا سبب بن سکتی ہے۔ الغرض! نجومیوں و ستارہ شناسوں کا خبریں دینے میں اور ان سے پوچھنے میں اعتقاد فاسد ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں، اسی لیے اس کی ممانعت میں صراحۃً احادیث وارد ہوئیں۔

   اسے یوں سمجھئے کہ کوئی شخص شاہی چراگاہ کے قریب اپنے جانور چرائے، تو جانوروں کا اس میں داخل ہونے کا اندیشہ بہت زیادہ ہوتا ہے، لہذا ایسے شخص کو چراگاہ کے قریب چرانے سے بھی منع کیا جائے گا، یہاں بھی مذکورہ مفاسد کے مد نظر تقدیر کا حال بطور ہزل و استہزا پوچھنے کو بھی مکروہ قرار دیا گیا کہ کہیں ان کی خبر پوری ہونے پہ اعتقاد متزلزل نہ ہو جائے اور بندہ فعلِ حرام و کفر میں نہ جا پڑے۔

   دوسرا فرقیہ ہے کہ علم نجوم محض تخمینی علم ہے،نہ یقینی ہے اورنہ ظنی ، علم نجوم میں کسی چیزکے متعلق حکم لگانے کے لیے جتنے اسباب کی معرفت ضروری ہوتی ہے،عام طورپراتنے اسباب کی معرفت حاصل نہیں ہوتی، بلکہ محض ایک آدھ کی ہوتی ہے اوربقیہ  اسباب پوشیدہ رہتے ہیں، جبکہ علم طب کے اکثر دلائل پراطلاع مل جاتی ہے اور پھر ان اکثری دلائل کی بنیا دپر اندازہ لگایا جاتا ہے۔

   امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ علمِ نجوم و علمِ طب میں فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’علم نجوم کے احکام محض تخمینی (یعنی قیاس پر مبنی)ہوتے ہیں کسی خاص شخص کے بارے میں نہ یقینی حکم معلوم ہوتا ہے نہ ظنی،۔۔ نجومی کی بات اگر کبھی درست ہوتی بھی ہے، تو وہ نادر اور اتفاقی ہے، کیونکہ نجومی بسا اوقات ایک سبب پر مطلع ہوتا ہے، لیکن اس سبب کے بعد مسبب نہیں پایا جاتا جب تک کہ کثیر شرائط نہ پائی جائیں اور وہ شرائط ایسی ہیں کہ جن کی حقیقتوں سے آگہی انسانی طاقت سے باہر ہے،۔۔ لیکن علم طب کا معاملہ اس کے برعکس ہے، اس لیے کہ اس کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کے اکثر دلائل پر اطلاع مل جاتی ہے۔‘‘(ملتقطاً از احیاء علوم الدین، جلد 1، صفحہ 122 تا 123، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   اشکال:

   مذکورہ بحث ملاحظہ کرنے کے بعد پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُس نجومی کا  کیا حکم ہوگا جو صراحتا ً کہہ دے کہ میں جو کچھ بتا رہاہوں وہ ظنی ہے اور یہ کوئی غیب کا علم نہیں، محض ستاروں کی چالوں سے مجھے یہ اندازہ ہورہا ہے، اسی طرح ٹی وی پر کرکٹ میچ کے دوران چار چار نجومیوں کو بٹھایا جاتا ہے اور چاروں مختلف رائے دیتے ہیں جس سے ویسے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ قطعی بات نہیں بتا رہے ، محض اندازے ہیں، ان سے پوچھنے کا کیا حکم ہے؟

   ازالۂ اشکال:

    ماقبل گزر چکا کہ اگر کوئی شخص گردشِ نجوم کو مثل حرکات نبض علامات سمجھے، تو دیگر شرائط کی موجودگی میں اس کا ستاروں سے کسی چیز پہ استدلال کرنا، جائز ہے، جیسا کہ اکابرین سے ثابت، لیکن موجودہ دور میں جس انداز سے علم نجوم کا استعمال کیا جاتا ہے، ہر معاملے میں نجومیوں کی طرف رجوع ، نفسیاتی اثر کی وجہ سے ان کی جھوٹی سچی پیشین گوئیوں کی طرف قلبی توجہ رکھنا،اپنے نظریات کو ان کی بتائی ہوئی باتوں کے مطابق ڈھالنا،وغیرہ، اس سے دیگر مفاسد کا دروازہ کھلتا ہے، (جن کی تفصیل اوپر گزریلہذا شرع مطہرہ نے ان مفاسد کا سد باب اور تحفظ ایمان مومنین کے لیے اس کے مقدمات کو ہی ناجائز و حرام، مکروہ و ممنوع قرار دے دیا، تا کہ (معاذ اللہ ) بربادی ایمان تک نوبت ہی نہ جائے۔

   شریعت مطہرہ کا یہ اصول ہےکہ وہ حرام کے طرف لے جانے والی چیزوں سے بھی منع کر دیتی ہے، جیسا کہ قرآن عظیم نے حدود اللہ کے قریب جانے سے بھی منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:﴿ تِلْکَ حُدُوۡدُ اللہِ فَلَا تَقْرَبُوۡہَا ترجمہ کنز الایمان:’’ یہ اللہ کی حدیں ہیں، ان کے پاس نہ جاؤ۔‘‘ (پارہ 2، سورۃ البقرہ، آیت 187)

   بخاری شریف کی حدیث میں بھی اسی جانب توجہ دلاتے ہوئے فرمایا گیا:’’ المعاصي حمى اللہ، من يرتع حول الحمى، يوشك ان يواقعه‘‘ ترجمہ:گناہ اللہ عزوجل کی چراگاہ ہے، جو چراگاہ کے گرد جانور چرائے، خوف ہے کہ وہ اس میں پڑ جائے۔ (صحیح البخاری، کتاب البیوع، باب الحلال بین و الحرام بین۔۔ الخ، جلد 1، صفحہ 275، مطبوعہ کراچی)

   سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’جو مباح ایسے امور ( یعنی کبائر و اتباع شیطان ) کی طرف منجر ہو، اس عارض کی وجہ سے مباح نہیں رہتا، شرعاً قابل احتراز ہو جاتا ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 12، صفحہ 312، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   علاوہ ازیں وجہ ممانعت یہ بھی ہے کہ نجومی جو پیشین گوئیاں کرتے ہیں، ان پر کوئی ظاہری سبب و علامت نہیں ہوتی، تو لوگ شک وحیرت میں مبتلا ہونے کے ساتھ ساتھ توکل علی اللہ میں کمی کر بیٹھیں گے۔

   لہذا نجومی اگرچہ پیشین گوئی کے متعلق صراحتاً کہیں کہ ہم جو بتا رہے ہیں، ظنی ہے، غیب کا علم نہیں، یا کسی بھی طریقے سے اس کے قطعی ہونے کا رد ہو رہا ہو، پھر بھی عوام کو ان سے پوچھنے سے منع کیا جائے گا، تا کہ ابتدا ہی سے مفاسد کا سدِ باب ہو، مؤمنین کے ایمان کی حفاظت ہو اور توکل قائم رہے۔

   رسائل ابن عابدین میں ہے:’’ان تعلم الزائد علی ذلک مما یستدل بہ علی الحوادث فیہ باس، لانہ مکروہ، لما فیہ من ایقاع العامۃ فی الشک لعدم علمھم، ۔۔۔ لما فیہ من خوف الوقوع فی اعتقاد تاثیر النجوم فی تلک الحوادث‘‘ ترجمہ: ۔۔ اس سے زائد سیکھنے میں قباحت ہے کہ جس سے حوادث پر استدلال کیا جائے، کیونکہ یہ مکروہ ہے کیونکہ اس میں عدم علم کی وجہ سے عوام کا شک میں پڑنے کا اندیشہ ہے، ۔۔۔یا اس میں اس بات کا خوف ہے کہ عوام ان حوادث میں ستاروں کی تاثیر کا اعتقاد کرنے لگ جائیں گے۔(رسائل ابن عابدین، رسالہ سل الحسام الھندی، جلد 2، صفحہ 314، سھیل اکیڈمی، لاھور)

   سوال:

    اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ دور حاضر میں اس علم کی رو سے کوئی بات مثلِ نبض سمجھ کر بھی جاننا اور بتانا منع ہو گا؟

   جواب:

   مثلِ نبض علامت سمجھ کر دیگر شرائط پائے جانے پر اس کے نفسِ  جواز کی ایک آدھ صورت موجود ہے، لیکن  وہ بھی کسی عالم باعمل یا  متقی پابند شرع، مسئلہ شرعیہ کی تمام تفصیل جاننے والے اور توکل و خوفِ خدا رکھنے والے شخص کے لیے  جبکہ دور حاضر میں یہ صورت اکثر مفقود ہے اور بہرحال اس میں مشغول رہنے کے متعلق فرمایا گیا:’’یکرہ الاشتغال بہ، لانہ مما لا یعنی‘‘ ترجمہ: اس علم میں مشغول ہو جانا مکروہ ہے، کیونکہ یہ بے مقصد کاموں میں سے ہے۔(رسائل ابن عابدین، رسالہ سل الحسام الھندی، جلد 2، صفحہ 315، سھیل اکیڈمی، لاھور)

   (7) بعض اخبارات و رسائل میں اس عنوان سےکہ ’’آپ کا ہفتہ کیسا گزرے گا‘‘ کالم شائع ہوتے ہیں اور ان میں اٹکل پچو سے غیب کی باتیں بتائی جاتی ہیں،یہ اپنے عموم کے اعتبار سے ناجائز و حرام ہے  کہ ہزاروں یا لاکھوں مضمون پڑھنے والوں کے لیے ان شرائط کا لحاظ تقریبا ناممکن ہے۔

   (8)  مروجہ فال دیکھنا دکھانا بھی منع ہے کہ یہ عموماً معصیت سے خالی نہیں ہوتی، ہاں! اگر جائز فال، جائز طور پہ دیکھے، نہ خود یقین کرے، نہ یقین دلائے، تو حرج نہیں اور عموما فال پر ایسا اعتقاد بھی نہیں ہوتا جیسے ستارہ شناسی سے دی گئی معلومات پر ہوتا ہے۔

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’(جو شخص فال کھول کر لوگوں کو اچھا اور برا ہونا بتاتا ہو) اگر یہ احکام قطع و یقین کے ساتھ لگاتا ہو، جب تو مسلمان ہی نہیں، اس کی تصدیق کرنیوالے کو صحیح حدیث میں فرمایا:’’فقد کفر بما نزل علی محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم،  ۔۔‘‘ اور اگر یقین نہیں کرتا، جب بھی عام طور پر جو فال دیکھنا رائج ہے، معصیت سے خالی نہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 100، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   مزید فرماتے ہیں:’’نجومی و رمال قابلِ امامت نہیں، یونہی جھوٹے فالناموں والے، ہاں! اگر جائز طور پر فال دیکھے، اور نہ اس پر یقین کرے، نہ یقین دلائے، تو حرج نہیں۔‘‘      (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 622، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم