Insurance Karwana Kaisa?

انشورنس کروانا کیسا ؟

مجیب:مولانا عرفان صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-6826

تاریخ اجراء:02ربیع الاول1441ھ/31اکتوبر2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں کہ(1)لائف انشورنس کی شرعی حیثیت کیاہے؟

    (2)اوربتائیے کہ سیدی اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کااس کے بارے میں کیامؤقف ہے ؟ اگران کامؤقف عدمِ جوازکاہے ، توپھراحکام شریعت میں اسے جائزقراردیناکس بناپرہے؟

    (3)لائف انشورنس کے علاوہ جنرل انشورنس جس میں ایک آدمی یاکمپنی اپنی جائدادگاڑی یامال کے تحفظ کیلئے کسی کمپنی کومخصوص مدّت کیلئے رقم دے ، توانشورنس کمپنی اس رقم کے عوض اس آدمی یاکمپنی کی جائداد،مال اورگاڑی وغیرہ کے تحفظ کی یقین دہانی کراتی ہے کہ اگراس مخصوص مدّت میں جائداد،گاڑی یامال کوانشورنس پالیسی میں درج خطرات میں سے کوئی بھی خطرہ لاحق ہوگیاتوانشورنس کمپنی اس آدمی یاکمپنی کواس کامعاوضہ اداکرے گی ، توکیایہ کاروبارجائزہے ؟ اوراگرناجائزہے ، توقرآن وحدیث کی روشنی میں بتائیے کہ کیوں ناجائزہے ؟ تفصیلاً بیان کردیں۔

سائل:محمدبلال(فیصل آباد)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     (1)مروّجہ انشورنس یعنی بیمہ پالیسی کاحکم یہ ہے کہ بیمہ پالیسی خواہ لائف(زندگی)کی ہویاکسی اورشے کی ناجائزوممنوع ہے اوریونہی اس میں کام کرنابھی ناجائزوممنوع اورگناہ کاکام ہے اورلائف انشورنس کے ناجائزہونے کی عمومی وجہ سود اورظلم ہے۔

    بیمہ پالیسی میں ملنے والی زائدرقم سودہے اس لئے کہ انشورنس کمپنی بیمہ ہولڈرسے اس کی رقم منافع کمانے یعنی کاروبارکرنے کی غرض سے لیتی ہے ، جبکہ شرعی طورپرغورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس میں دیگرقباحتوں کے ساتھ ساتھ کاروبارکے تمام شرعی اصولوں کی پاسداری نہیں کی جاتی ، جس کی بناء پراس رقم کی حیثیت فقط قرض کی ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے پالیسی لینے والاشخص(قرض خواہ)اورانشورنس کمپنی(قرض دار)کی حیثیت رکھتے ہیں اورچونکہ شرعی اعتبارسے قرض پرمعاہدے کے تحت کچھ زائدلینااگرچہ فکس نہ ہو،سودہوتاہے جبکہ کمپنی اپنے پالیسی ہولڈرکواس کی جمع شدہ رقم پرزائدرقم اداکرنے کی پابندہوتی ہے اوریہ سودہے۔چنانچہ سودکی تعریف کے بارے میں فقہ کی مشہورکتاب''ہدایہ''میں ہے:”الربا ھو الفضل المستحق لأحد المتعاقدین فی المعاوضة الخالی عن عوض شرط فیہ''یعنی سودعاقدین میں سے کسی ایک کے لئے معاوضہ میں ثابت ہونے والی وہ مشروط زیادتی ہے جوعوض سے خالی ہو۔

( ھدایہ آخرین، ج 2  ، ص82،مطبوعہ لاھور )

    اورسودی نفع کی قرآن وحدیث میں مذمت بیان فرمائی گئی ہے ۔ چنانچہ ارشادِباری تعالیٰ ہے:﴿ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ﴾ترجمۂ کنزالایمان:اوراللہ نے حلال کیابیع اورحرام کیاسود۔

(سورة البقرۃ ،آیت نمبر275 )

    علامہ علاء الدین المتقی علیہ رحمۃ اللہ القوی ایک حدیثِ مبارک نقل کرتے ہیں”جس میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:”کل قرض جر منفعة فھو ربا ۔ رواہ الحارث بن ابی اسامة عن امیر المومنین علی کر م اللہ تعالیٰ وجھہ الکریم “ ترجمہ: ہروہ قرض جومنفعت لے آئے وہ(منفعت)سودہے۔اسے حارث بن ابی اسامہ نے امیر المومنین علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے روایت کیا۔

(کنز العمال،کتاب الدین والسلم،رقم الحدیث15512،ج6،ص99، دارالکتب العلمیہ بیروت)

    علامہ علاؤالدین حصکفی علیہ رحمۃ اللہ القوی "درمختار"میں"الاشباہ والنظائر"کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں:”کل قرض جرنفعا حرام“ترجمہ:ہرقرض جونفع لے آئے وہ حرام ہے۔

(درمختار،کتاب البیوع،باب المرابحةوالتولیة،ج7،ص395، دارالکتب العلمیہ ، بیروت)

    اس کے تحت علامہ محمد امین ابن عابدین شامی قدس سرہ السامی''رد المحتار''میں فرماتے ہیں:''ای کان مشروطا ''یعنی وہ نفع تب حرام ہے جب اس کی شرط لگائی گئی ہو۔

(ردالمحتار،کتاب البیوع،باب المرابحةوالتولیة،ج7،ص395، دارالکتب العلمیہ ، بیروت)

    اورحدیث مبارک میں سودکالین دین کرنے والوں کے بارے میں ارشادہوا :لعن رسول ﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  اکل الربوٰا و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ قال وھم سواء''رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے سودکھانے والے، کھلانے والے،اس کے لکھنے والے اوراسکے گواہوں پرلعنت فرمائی اورارشادفرمایاکہ یہ تمام لوگ برابرہیں۔

 (مسلم ،ج2 ، ص 27،مطبوعہ کراچی )

    اورظلم کی صورت یہ ہے کہ بیمہ کرانے والا اگر دو یا تین قسطیں دینے کے بعدباقی اقساط ادانہ کرے اورپالیسی ختم کرناچاہے ، تواس کی ذاتی جمع کروائی ہوئی رقم اس کوواپس نہیں دی جاتی اوریہ بات صریحاًظلم وناجائز،قرآن وحدیث کے خلاف اورباطل طریقے سے ایک مسلمان کامال کھاناہے ۔ چنانچہ عربی لغت میں ظلم کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:”وضع الشیء فی غیر موضعہ “ یعنی کسی شے کوایسی جگہ رکھنا جو اس کامحل نہ ہو ”واصل الظلم الجورومجاوزة الحد“اورظلم کی اصل زیادتی اورحدسے بڑھناہے۔''

(لسان العرب،ج12 ، ص373،مطبوعہ دارالفکر ، بیروت)

        اورحدیثِ پاک میں کسی کامال ظلماًلینے کے بارے میں فرمایاگیاکہ:”من اخذ شبرا من الارض ظلمافانہ یطوقہ یو م القیامة من سبع ارضین“یعنی جس نے بالشت بھرزمین ظلماً لی(غصب کی)بروزِقیامت اسے سات زمینوں کاطوق پہنایاجائے گا ۔

(مشکوة شریف ،ص254،مطبوعہ کراچی)

    اورکسی کامال ناحق کھانے کے بارے میں قرآ ن مجیدفرقانِ حمیدمیں ارشادِ باری تعالی ہے:﴿ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ﴾ترجمۂ کنز الایمان:اورآپس میں ایک دوسرے کامال ناحق نہ کھاؤ۔

( سورة البقرہ ،پارہ 2،آیت188)

    مصنف شرح صحیح مسلم بیمہ کے موجودہ نظام میں پائے جانے والے فسادکی متعددوجوہات کوبیان فرماتے ہیں ۔ مثلاً: ”

    (1)بیمہ کمپنی اپنے جمع شدہ سرمایہ کوگردش میں رکھنے کے لئے دوسرے صنعتی اورتجارتی اداروں کوسودپرقرض فراہم کرتی ہے اورسودحرام قطعی ہے ۔ جیسا کہ مذکورہ صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے۔

    (2)یہ کہ بیمہ کرانے والے کواگرقرض لیناہوتوبیمہ کمپنی اس کوبھی سودپرقرض دیتی ہے۔

    (3)یہ کہ بیمہ کرانے والااگردویاتین قسطیں دینے کے بعدباقی اقساط ادانہ کرے تواس کی رقم اس کوواپس نہیں دی جاتی اوریہ ظلم اورناجائزعمل ہے۔

    (4)یہ کہ بیمہ کمپنی مدت پوری ہونے کے بعدبیمہ کرانے والے کواس کی اصل رقم مع سودکے لوٹاتی ہےاورسود لینااوردینادونوں حرام ہیں۔

    (5)یہ کہ مدت پوری ہونے سے پہلے اگر کوئی شخص طبعی موت مرجائے یاکسی حادثہ میں ہلاک ہوجائے تواس کوپہلی صورت میں پوری مد ت کی رقم اوردوسری صورت میں دگنی رقم دی جاتی ہے اب اس کو اس کی جمع شدہ اقساط سے زائد رقم جودی جاتی ہے اس کواگرشرط لازم قراردیاجائے(جیساکہ عملاً اسی طرح ہے)تویہ عقد صحیح نہیں ہے اوراگر اس کو تبرع اور احسا ن قراردیاجائے تویہ واقع کے خلاف ہے۔“

(المختصر من شرح صحیح مسلم ، ج5 ، ص 865 ،  866)

    (2)بیمہ کے بارے میں سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن کامؤقف بھی عدم جوازہی کاہے ۔ جیساکہ آپ علیہ الرحمۃ'' فتاوی رضویہ ''میں ایک سوال کے جواب میں '' جس میں بیمہ کی چارصورتیں بیان کی گئی'' اس کاحکم بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں: ” یہ بالکل قمار ہے اور محض باطل کہ کسی عقد شرعی کے تحت میں داخل نہیں ۔ ایسی جگہ عقودفاسدہ بغیرعذرکے جو اجازت دی گئی ، وہ اس صورت سے مقید ہے کہ ہرطرح ہی اپنانفع ہواوریہ ایسی کمپنیوں میں کسی طرح متوقع نہیں ، لہٰذا اجازت نہیں ۔ کماحقق المحقق علی الاطلاق فی فتح القدیر۔“

(فتاوی رضویہ، جلد17صفحہ365،مطبوعہ رضا فاؤ نڈ یشن ، لاھور)

    اور''احکام شریعت'' میں سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت علیہ رحمۃ الرحمن نے جوبیمہ پالیسی کے جواز کا حکم ارشادفرمایا ، اس کا جواب یہ ہے کہ اس سوال اور آپ علیہ رحمۃ الرحمن کے جواباً دئیے گئے ارشاد میں مذکورہے کہ وہ بیمہ گورنمنٹ کی جانب سے تھااورچونکہ اُس وقت گورنمنٹ کفارکی تھی اورکفارسے دھوکہ وبدعہدی کیے بغیرکسی بھی طرح کاکوئی نفع یاان کا مال لیناکہ جس کے لینے میں اپناکسی قسم کانقصان نہ ہو،جائزہے لہذااس وقت کی گورنمنٹ کے لحاظ سے آپ علیہ الرحمۃ نے جواز کا حکم ارشاد فرمایا اوراس کو کئی شرائط کے ساتھ مقید کیا ، لہٰذا مروجہ بیمہ پالیسی کواس پر قیاس کرنادرست نہیں۔

    چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن'' احکام شریعت ''میں تحریرفرماتے ہیں: ” جب کہ یہ بیمہ صرف گورنمنٹ کرتی ہے اوراس میں اپنے نقصان کی کوئی صورت نہیں توجائزہے کہ کوئی حرج نہیں ، مگرشرط یہ ہے کہ اس کے سبب اس کے ذمہ کسی خلاف شرع احتیاط کی پابندی نہ عائد ہوتی ہو ۔ جیسے روزوں یاحج کی ممانعت ۔“

(احکام شریعت،ح 2،ص187، بُک کارنر، جہلم )

    اوربیمہ پالیسی کرنے والوں میں اگرمسلمان بھی شامل ہوں ، جیسے ہمارے ہاں بیمہ پالیسی کرنے والے عموماً مسلمان ہی ہوتے ہیں ، تواس کاحکم بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں:” جس کمپنی سے یہ معاملہ کیاجائے ، اگراس میں کوئی مسلمان بھی شریک ہے ، تومطلقاً حرام قطعی ہے کہ قمارہے اوراس پرجوزیادت ہے ربا اور دونوں حرام وسخت کبیرہ ہیں۔“

(فتاوی رضویہ، جلد23صفحہ 595،مطبوعہ رضا فاؤ نڈ یشن  ، لاھور)

    اوریہ بھی یادرہے کہ کافروں کے ساتھ بہت سے عقودفاسدہ جائزہوتے ہیں ، جومسلمانوں کے ساتھ جائزنہیں ہوتے ، جبکہ ان میں بھی کفارکے ساتھ دھوکہ یابدعہدی نہ کی جائے ۔ جیساکہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن کفارسے غدر (دھوکہ) و بدعہدی کیے بغیر ان کامال لینے کے بارے میں ارشادفرماتے ہیں:” جوکافر نہ ذمی ہونہ مستامن سواغدر(دھوکہ) بدعہدی کے کہ مطلقاً ہر کافرسے بھی حرام ہے ، باقی اس کی رضا سے اس کا مال جس طرح ملے ، جس عقد کے نام سے ہو ، مسلمان کے لیے حلال ہے۔“

( فتاوی رضویہ جلد،17 ص348 ،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھو ر )

    (3)اورجنرل انشورنس کے ناجائزہونے میں عمومی وجہ جوا اورظلم کی صورتوں کامتحقق ہوناہے ۔ مثلاًجوا اس طرح کہ مقررہ مدّت کے دوران اگرخریدی ہوئی چیزمیں کوئی نقصان پہنچا ، توکمپنی کواس کی تلافی کرناہوتی ہے اوراس طرح پالیسی ہولڈر کافائدہ ہوجاتاہے کہ اس صورت میں کم پیسہ دے کرنقصان زیادہ ہونے کی صورت میں رقم زیادہ مل جاتی ہے اوراگرپالیسی ہولڈرکوکسی قسم کانقصان نہ ہوا اوراس کی چیزمقررہ مدّت تک کمپنی کے بیان کردہ نقصانات سے محفوظ رہی توپالیسی ختم ہونے کے بعدپالیسی ہولڈرکی ساری رقم ضبط ہوجاتی ہے اورکمپنی کافائدہ ہوجاتاہے،پس اسی کو جوا کہتے ہیں ۔ جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:”اذاکان البد ل من الجانبین فھو قمار حرام “ ترجمہ:اگردونوں جانب سے مال کی شرط ہو(مثلاً تم آگے ہوگئے تومیں اتنا دوں گااورمیں آگے ہوگیا تومیں اتنا لوں گا)یہ صورت جُوا اورحرام ہے ۔                            

(فتاوی عالمگیری ، ج5 ، ص324 ، مطبوعہ کوئٹہ)

    اوراسلام نے جُوا حرام قراردیاہے ۔ چنانچہ جوئے کی حرمت کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشادفرماتا ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو!شراب اور جُوا اوربت اورپانسے ناپاک ہی ہیں ، شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا  کہ تم فلاح پاؤ۔

(پارہ7 ، سورة المائدہ ، آیت90 )

    اوردرحقیقت یہ جُوا بازی باطل طریقے پرلوگوں کامال کھاناہے ، جس سے اللہ تعالی نے منع فرمایاہے ۔ چنانچہ ارشادِخداوندی ہوا کہ﴿ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ﴾ترجمۂ کنز الایمان:اورآپس میں ایک دوسرے کامال ناحق نہ کھاؤ۔

(القرآن ،  سورة البقرہ ، آیت188)

    اورایسوں کے متعلق خودنبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے وعیدذکر فرمائی ہے ۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ”ان رجالا یتخوضون فی مال اللہ بغیر حق فلھم النار یوم القیامة“ترجمہ:بے شک کچھ لوگ اللہ کے مال میں ناحق طور پرداخل ہوجاتے ہیں پس قیامت کے دن ان کیلئے آگ ہوگی۔                                            

(مسند امام احمد بن حنبل، ج3 ،ص 157)

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن بیمہ کاحکم بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں:” یہ شرعاً قمار(جُوا)محض ہے وہ ماہوار کہ اس میں دیاجاتاہے ، وقت مشروط سے پہلے واپس نہیں لیاجاسکتانہ شرعاً وہ محکمہ اس کامالک ہوسکتاہے ۔ وقتِ واپسی جتنا جمع ہوا تھااس کی ہر سال کی زکوٰة لازم آئے گی اوراگر اس سے زائدملے گاتو اس کی زکوٰة نہیں کہ بیمہ کرانے والے کی ملک نہ تھا۔“

(فتاوی رضویہ،جلد19 ، صفحہ 502،مطبوعہ رضافاؤ نڈ یشن ، لاھور)

    مزیداسی میں ایک اورمقام پرشادی وزندگی کے بیمہ کے متعلق فرماتے ہیں:”یہ نراقمارہے ۔ اس میں ایک حد تک روپیہ ضائع بھی جاتاہے اوروہ منافع موہوم ، جس کی امیدپردَین اگر ملے بھی ، توکمپنی بیوقوف نہیں کہ گرہ سے ہزارڈیڑھ ہزاردے بلکہ وہ وہی روپیہ ہوگاجواوروں کاضائع گیا اوران میں مسلمان بھی ہوں گے ، تو کوئی وجہ اس کی حلت کی نہیں۔“

(فتاوی رضویہ، جلد17 ، صفحہ 381،مطبوعہ رضا فاؤ نڈ یشن ، لاھور)

    جبکہ جنرل انشورنس میں ظلم کی صورت یہ ہے کہ مثلا کوئی شخص کسی مال کابیمہ کرواتاہے ، مگر وہ مال پالیسی کی تکمیل سے پہلے ہی ضائع ہوجائے ، توبیمہ کمپنی اس کے نقصان کاازالہ کرنے کی ذمہ دار ہوگی ۔ جیساکہ سائل نے سوال میں ذکرکیا۔ حالانکہ یہ نقصان بیمہ کمپنی نے نہیں کیاہوتا ، مگر پھر بھی وہ اس کاضمان ادا کرنے پرمجبورہے اوریہ بات صریحاً قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔

چنانچہ قرآنِ مجیدفرقانِ حمیدمیں ارشادِ باری تعالی ہے:﴿فمن اعتدی علیکم فاعتدواعلیہ بمثل مااعتدی علیکم ﴾ ترجمہ : یعنی : جوتم پرزیادتی کرے توتم اس پرزیادتی کرلواسی قدرزیادتی جتنی اس نے تم پرکی۔

(سورةالبقرة، آیت 194)

    اورمزیدایک مقام پرفرمانِ باری تعالیٰ ہے:﴿ وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ﴾یعنی : اور اگر تم سزا دو تو ویسی ہی سزا دو جیسی تکلیف تمہیں پہنچائی تھی۔

 سورةالنحل ،آیت 126)

    مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی محمدوقارالدین قادری رضوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے جب اس قسم کے بیمہ کے بارے میں سوال کیا گیا ، توآپ علیہ الرحمۃ جواباًارشادفرماتے ہیں:” ہرقسم کابیمہ ناجائزہے۔اسلام کاقاعدہ یہ ہے کہ جوکسی کامالی نقصان کرے گا ، وہی ضامن ہوگا اوربقدرِنقصان تاوان دے گا۔قرآن کریم میں ہے:﴿فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل مااعتدی علیکم ﴾لہذاچوری،ڈکیتی،آگ لگنے اورڈوبنے وغیرہ کابیمہ ناجائزہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب مال کانقصان انشورنس کمپنی نے نہیں کیاتووہ تاوان کیوں دے گی؟ “

(وقارالفتاوی،ج اوّل،ص 240،مطبوعہ کراچی)

    اورسائل کایہ کہناکہ کمپنی اس شخص کی جائیداد،مال اورگاڑی وغیرہ جس کی انشورنس کروائی جاتی ہے ، اس کے تحفظ کی یقین دہانی کرواتی ہے ، جس میں بیمہ کمپنی کی طرف سے بیان کردہ خطرات میں سے کسی کے لاحق ہونے کی صورت میں وہ اس کے نقصان کوپوراکرنے کی پابندہوتی ہے،حالانکہ کمپنی اس چیزکے تحفظ کے لئے کوئی کام نہیں کرتی اورنہ ہی کوئی محافظ وہاں بٹھاتی ہے کہ جس کی وجہ سے واقعی تحفظ کرناکہاجاسکے اوراس مال یاگاڑی کوان کے پاس بطورِ امانت قراردیاجاسکے جس میں کمپنی کی طرف سے تعدی کرنے کی صورت میں ضمان اورعدمِ تعدی کی بناء پرعدمِ ضمان کاحکم لگایاجاسکے ، بلکہ اس گاڑی یامال کومالک کے پاس ہی چھوڑدیاجاتاہے ، جسے شرعاً امانت رکھوانانہیں کہا جا سکتااوراس میں صرف یقین دہانی کرواناکوئی چیزنہیں اور یہ ایسے کاموں میں سے ہے کہ جن میں شرعاًظلم کی تعریف صادق آتی ہے۔

چنانچہ عربی لغت میں ظلم کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:”وضع الشیء فی غیر مو ضعہ“یعنی کسی شے کوایسی جگہ رکھناجواس کامحل نہ ہو''واصل الظلم الجور ومجاوزة الحد''اورظلم کی اصل زیادتی اورحدسے بڑھناہے۔''

(لسان العرب ،جلد12ص373،مطبوعہ دار الفکر  ، بیروت)

    اورحدیثِ پاک میں کسی کامال ظلماًلینے کے بارے میں فرمایاگیاکہ:”من اخذ شبرا من الارض ظلمافانہ یطوقہ یو م القیامة من سبع ارضین“یعنی جس نے بالشت بھرزمین ظلماً لی(غصب کی)بروزِقیامت اسے سات زمینوں کاطوق پہنایاجائے گا ۔

(مشکوة شریف، ص254،مطبوعہ کراچی)

    مزیدایک مقام پرحضورنبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:”من کانت لہ مظلمة لاخیہ من عرضہ او شیٔ فلیتحللہ منہ الیوم قبل ان لا یکون دینار ولادرھمالخ “یعنی جس نے اپنے بھائی پرظلم کیاہو ، اس کی عزت یاکسی شے(مال یاجان)میں سے،توآج ہی اس سے گلوخلاصی کرلے ، اس سے پہلے کہ اس کے پاس کوئی دینارودرھم نہ ہو۔

(مشکوة المصابیح،ص435،مطبوعہ کراچی)

    لہذامسلمانوں کو ہرقسم کی بیمہ پالیسیوں سے حتی المقدوربچناہی چاہیے کہ ہمارے زمانہ میں رائج بیمہ پالیسی محرمات کا مجموعہ ہے جن سے بچنالازم ہے کہ اسی میں شریعت کی فرمانبرداری ہے اوراسی میں اللہ تبارک وتعالی اوراس کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی رضامندی ہے۔

اللہ تبارک وتعالی تمام مسلمانوں کوحق بات سمجھنے اوراس پرعمل کرنے کی فیق عطافرمائے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم