Janwar Ki Ojhri Khana Kaisa ?

جانور کی اوجھڑی کھانا کیسا ؟

مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2832

تاریخ اجراء:25ذوالحجۃالحرام1445 ھ/02جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   جانور کی اوجھڑی کھانا کیسا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جانور کی اوجھڑی کھانا ،مکروہ تحریمی  و ناجائز ہے ۔

   اس مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ احادیث  میں حلال جانور کے سات اجزاء کو مکروہ و ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے : (1) پِتَّہ (2) مَثانہ (3) مادہ کی شرمگاہ (4) نر کا عضوِ تناسل (5) کپورے(6) غُدود(7) خون ، اور محدثِ جلیل ، مجتہد مطلق ، امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ ان ساتوں چیزوں میں ایک بات  مشترک پائی جاتی ہے جو ان کے مکروہ و  ناپسندیدہ ہونے  کی وجہ ہے اور وہ ان کا " خبیث ہونا " یعنی پاکیزہ طبیعت کے خلاف اورگھن کا باعث  ہونا  ہے اور یہی وجہ اور علت "اوجھڑی " میں بھی پائی جاتی ہے ؛ کیونکہ جس طرح مثانے میں پیشاب جمع ہوتا ہے اسی طرح اوجھڑی میں گوبر و گندگی جمع ہوتی ہے اور مثانے کو حدیث پاک میں مکروہ وناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے،  جس سے فقہاء نے "مکروہ تحریمی" مراد لیا ہے، لہذا مثانے کی طرح اوجھڑی بھی مکروہ تحریمی ہو گی ۔

اوجھڑی سے متعلق  شرعی حکم پر اعلی حضرت رحمۃا للہ علیہ کی تحقیق :

   شیخ الاسلام ، امامِ اہلِ سنت ،  اعلی حضرت ، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 1340ھ) سے فتاوی رضویہ میں سوال ہوا کہ  بدن حیوان ماکول اللحم (حلال جانور کے جسم )میں کیا کیا چیزیں مکروہ ہیں؟

   تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً فرمایا:” سات چیزیں تو حدیثوں میں شمار کی گئیں (1) مرارہ یعنی پتہ (2) مثانہ یعنی پھکنا (3) حیا یعنی فرج (4) ذَکَر  [عضو تناسل ](5) اُنثَیَین [کپورے](6) غُدَّہ [یعنی غُدود](7) دم یعنی خون مَسفوح، اخرج الطبرانی فی المعجم الاوسط عن عبد اللہ بن عمر و ابن عدی،والبیھقی عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھم،کان رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم یکرہ من الشاۃ سبعا المرارۃ والمثانۃ والحیاء والذکر والانثیین والغدۃ والدم(طبرانی نے معجم الاوسط میں عبد اللہ بن عمر اور ابن عدی سے اور بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھم سے روایت کیا کہ   رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  ذبیحہ کے سات اجزاء کو مکروہ قرار دیتے تھے : (1) پِتَّہ (2) مَثانہ (3) مادہ کی شرمگاہ (4) نر کا عضوِ تناسل (5) کپورے(6) غُدود(7) خون) ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: خون تو حرام ہے کہ قرآن عظیم میں اس کی تحریم منصوص ، اور باقی چیزیں میں مکروہ سمجھتاہوں کہ سلیم الطبع (پاکیزہ طبیعت والے)لوگ ان سے گھن کرتے ہیں اور انھیں گندی سمجھتے ہیں۔۔۔اور مختار ومعتمدیہ ہے کہ کراہت سے مراد کراہت تحریمی ہے۔۔۔یہ تو سات  بہت کتب مذہب، متون وشروح وفتاوٰی میں مصرح اور علامہ قاضی بدیع خوارزمی صاحب غنیہ الفقہاء وعلامہ شمس الدین محمد قہستانی شارح نقایہ وعلامہ سیدی احمد مصری محشی درمختار وغیرہم علماء نے دو چیزیں اور زیادہ فرمائیں (8) نخاع الصلب یعنی حرام مغز ۔۔۔(9) گردن کے دو پٹھے جو شانوں تک ممتد ہوتے ہیں، اور فاضلَین اخیرین وغیرہما نے تین اور بڑھائیں (10) خون جگر (11) خون طحال [تلی کا خون](12) خون گوشت یعنی دم مسفوح نکل جانے کے بعد جو خون گوشت میں رہ جاتاہے۔۔۔اقول:  وباﷲ التوفیق وبہ الوصول الی اوج التحقیق  (تحقیق کی بلندی تک اللہ کی دی ہوئی توفیق سے ہی پہنچا جا سکتا ہے لہذا  میں اللہ کی دی ہوئی توفیق سے یہ کہتا ہوں کہ ) علماء کی ان زیادت سے ظاہر ہوگیا کہ سات میں حصر مقصود نہ تھا، بلکہ صرف باتباع نظم حدیث ونص امام ان پر اقتصار واقع ہوا، اور خود ان علمائے زائدین نے بھی قصد استیعاب نہ فرمایا، یہ امر انھیں عبارات مذکورہ سے ظاہر ، اور اس پر دوسری دلیل واضح یہ کہ جگر وطحال وگوشت کے خون گنے اور (13) خون قلب چھوڑ گئے حالانکہ وہ قطعا ان کے مثل ہے۔۔۔اورنیز عدم حصر پر ایک اور دلیل قاطع یہ ہے کہ عامہ کتب میں دم مسفوح اور ان کتابوں میں دم لحم وکبد وطحال کو شمار کیا، تو اس سے واضح کہ کلام اعضاء سے اخلاط تک متجاوز ہوا، اور بیشک اخلاط سے (14) مرہ بھی ہے یعنی وہ زرد پانی کہ پتہ میں ہوتا ہے جسے صفرا کہتے ہیں۔۔۔تو واضح ہوا  کہ عامہ کتب میں لفظ سبع (سات) صرف باتباع حدیث ہے۔ جس طرح کتب کثیرہ میں شاۃ (بکری) کی قید۔۔۔ حالانکہ حکم صرف بکری سے خاص نہیں، یقینا سب جانوروں کا یہی حکم ہے۔۔۔تو جیسے لفظ شاۃ محض باتباع حدیث واقع ہوا، اور اس کا مفہوم مراد نہیں، یونہی لفظ سبع اور اہل علم پر مستتر نہیں کہ استدلال بالفحوٰی یا اجرائے علت منصوصہ خاصہ مجتہد نہیں۔۔۔اور یہاں خود امام مذہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشیاء ستہ کی علتِ کراہت پر نص فرمایا کہ "خباثت ہے" اب فقیر متوکلا علی اللہ تعالیٰ کوئی محل شک نہیں جانتا کہ (17)دُبر یعنی پاخانے کا مقام (18)کرش یعنی اوجھڑی (19) امعاء یعنی آنتیں بھی اس حکمِ کراہت میں داخل ہیں(یعنی مکروہ تحریمی و ناجائز ہیں )، بیشک دُبرفرج وذکر سے اور کرش وامعاء مثانہ سے اگر خباثت میں زائد نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں، فرج وذکر اگر گزر گاہ بول ومنی ہیں دُبرگزر گاہ سرگین ہے، مثانہ اگر معدن بول ہے شکنبہ و رُودَہ مخزنِ فرث ہے اب چاہے اسے دلالۃ النص سمجھئے خواہ اجرائے علت منصوصہ  ۔"(فتاوی رضویہ،ج 20،ص 234 تا 239 ملتقطاً،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم