Kafir Company Se Insurance Karwane Ki 1 Najaiz Sorat?

کافر کمپنی سے انشورنس کروانے کی ایک ناجائز صورت ؟

مجیب:مولانا ساجد صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:UK 02

تاریخ اجراء:21جمادی الثانی 1438ھ/21 مارچ 2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک لائف انشورنس لینا چاہتا ہوں۔ میری صورت حال یہ ہے کہ  میری عمر 60سال ہے اور میں نے مورگیج پر گھر لیا ہوا ہے ، جس کا میں نےتقریباً 2 لاکھ50ہزارپاؤنڈ دینا ہے اور میں فی الحال اتنا قرض ادا نہیں کر سکتا اور نہ ہی میرے مرنے کے بعد میری بیوی ادا کر سکے گی اور اگر یوں ہی میں فوت ہوگیا ، تو بینک والے میرا گھرفروخت کر دیں گے ، ہاں  اگر ان کے قرض سے زیادہ کا گھر بکتا ہےتو اضافی رقم وہ ہمیں واپس کر دیں گے یا ہمیں خود وہ گھر  بیچ کر رقم ادا کرنا ہوگی۔ بہر حال دونوں صورتوں میں میرے بعد میرے گھر والے اس گھر میں نہیں رہ سکیں گے اور اگر اس مورگیج پر میں لائف انشورنس کروا لوں تو بچت ہو سکتی ہے۔

    اس  کی صورت یہ ہے کہ یہ انشورنس غیر مسلم کمپنی سے ہوگی اور ان کی پالیسی پلان15 سال  کا ہے یعنی 15 سال کی پالیسی لینے میں مجھے ہر ماہ 100 پاؤنڈ جمع کروانے ہوں گے یعنی 15 سالوں کے 18 ہزار پاؤنڈ۔ پھر اگر میں 15 سالوں میں فوت ہوگیا تو کمپنی میرے مورگیج کی ساری رقم بینک کو ادا کرے گی اور اگر میں اتنے عرصے میں فوت نہ ہوا تو یہ انشورنس کمپنی مجھے کچھ بھی نہیں دے گی۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ میں اس کے بعد پھر اگلے 15 سال کی پالیسی دوبارہ لے لوں ۔اور یوں ہر 15 سال کے بعد پالیسی لے سکتا ہوں۔اس ساری صورت حال کے پیش نظر آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا میں یہ پالیسی لے سکتا ہوں یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال میں بیان کردہ صورت کے مطابق آپ کے لئے یہ انشورنس کروانا بالکل ناجائز و گناہ ہے ، کیونکہ یہ  اپنی اصل کے اعتبار سے  قمار (جوئے)کی ایک صورت ہے ۔ یعنی اس میں اپنا مال داؤ و خطر(Risk) پر لگایا گیا ہے اورہر فریق کی طرف یہ امکان(possibility) موجود ہے کہ اس کا مال دوسرے کو مل جائے اور یہی جوا ہے اور اس صور ت میں اگرچہ یہ معاملہ غیر مسلم کمپنی سے کیا جا رہا ہے ، لیکن چونکہ اس میں مسلمان کو نفع ملنا غالب نہیں ، بلکہ جتنا امکان نفع ملنے کا ہے ، اتنا ہی امکان مال جانے اور نقصان کا بھی ہے ۔ یعنی اگر 15 سال تک زندہ نہ رہے ، پھر تو فائدہ ہے ، لیکن اگر زندہ رہے ، تو پھر آپ کا نقصان ہے کہ آپ کا مال کافر کے ہاتھ بلا وجہ جائے گا اور ایسا عقدمسلمان اور کافر کے درمیان بھی جائز نہیں ہوتا ، جس میں مسلمان کے نقصان کی صورت ہو ۔آپ ایک بار پالیسی لیں یا دو بار  چونکہ ہر ایک میں یہی کیفیت ہے ، لہٰذ احکم بھی یہی ہوگا ،ہاں  ایسی صورت ہو کہ مسلمان کو نفع ملنے کا غالب گمان  ہو ، تب ایسا عقدکافر سے  جائز  ہو سکتا ہے ، لیکن فی الحال سوال میں بیان کردہ صورت کے مطابق آپ کی وہ کیفیت نہیں۔

اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجْتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ  ﴾ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو شراب اور جُوااور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ۔

(سورہ مائدہ، آیت نمبر 90)

    علامہ ابن حجرہیتمی علیہ الرحمۃ اپنی کتاب الزواجر میں لکھتے ہیں : ”والميسر القمار بأي نوع كان،  وروى البخاري أنه - صلى الله عليه وسلم - قال: «من قال لصاحبه تعال أقامرك فليتصدق» “ترجمہ:” المیسر“ یہ جوا ہے چاہے کسی بھی قسم کا ہو اور امام بخاری نے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس نے اپنے ساتھی کو کہا کہ آؤ ، میں تمہارے  ساتھ جوا کھیلوں، تو اسے چاہیے کہ وہ صدقہ کرے“

(الزواجر عن اقتراف الكبائر، کتاب الشھادات، جلد2، صفحہ329، دار الفکر، بیروت)

    خاتمۃ المحققین حضرت علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں :” لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص “ترجمہ: قمار ، قمر(چاند) سے بناہے جو کہ کبھی زیادہ ہوتا ہے اور کبھی کم ہوتا  ہے۔ اور قمار کو قمار اس  لئے کہتے ہیں کہ اس قمار کا معاملہ کرنے والے دونوں افراد میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ امکان ہوتا ہے کہ اس کا مال دوسرے کو مل جائے اور یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ دوسرے کا مال اسے مل جائے اور  اس معاملے کی حرمت  نص سے ثابت ہے۔

(رد المحتار،کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی البیع، جلد6، صفحہ403، دار الفکر، بیروت)

    مزید ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں :”قال في فتح القدير: لا يخفى أن هذا التعليل إنما يقتضي حل مباشرة العقد إذا كانت الزيادة ينالها المسلم وقد ألزم الأصحاب في الدرس أن مرادهم في حل الربا والقمار ما إذا حصلت الزيادة للمسلم نظرا إلى العلة “ترجمہ: صاحب فتح القدیر فرماتے ہیں : یہ بات مخفی نہیں کہ) مذکورہ)علت بیان کرنا تقاضا کرتا ہے کہ ایسا عقد کرنا اس وقت حلال ہو جب نفع اور اضافی مال مسلمان کو ملے۔ اور (ہمارے)اصحاب نے درس میں اس بات کو بیان کرنے کا التزام کیا ہے کہ فقہاء جب (مسلمان اور کافر کے درمیان) سود  و قمار کو حلال کہتے ہیں تو ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ جب نفع و اضافی مال مسلمان کو حاصل ہو ، اس کی علت کے اعتبار سے۔

(درمختار مع رد المحتار،باب الربا، جلد5، صفحہ186، دار الفکر، بیروت)

    صدر الشریعہ بدر الطریقہ  حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالی بیمہ کی ایک صورت کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”یہاں دو صورتیں ہیں: مرجاتے ہیں تو ورثہ کو پوری وہ رقم جو معین کی گئی ہے ملتی ہے، اگرچہ کل رقم جمع نہ کی ہو اور یہ ایک صورت فائدہ کی ہے مگر دوسری صورت کہ کسی وجہ سے رقم جمع کرنا بند کردیا تو جو کچھ جمع کیا ہے وہ بھی پورا نہیں ملتا یہ صورت سراسر نقصان کی ہے اور کفار سے اس طرح پر عقد فاسد کے ذریعہ رقم حاصل کرنے میں جواز اسی وقت ہے جبکہ نفع مسلم کا ہو ۔“

(فتاوی امجدیہ، جلد3، صفحہ238، مکتبہ رضویہ، کراچی)

    ایک اور جگہ آپ ارشاد فرماتے ہیں :”زندگی کے بیمہ کی بہت سی صورتیں ہوتی ہیں:بعض میں نفع نقصان دونوں ہوتے ہیں اور یہ ناجائز ہے اور بعض ایسی صورت ہے کہ نقصان نہیں ہوتا ، یہ بیمہ اگر کفار سے ہو تو جو کچھ زیادہ ملے لینا جائز ہےورنہ نہیں۔“

(فتاوی امجدیہ، جلد3، صفحہ239، مکتبہ رضویہ، کراچی)

    امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ لائف انشورنس کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :” جس کمپنی سے یہ معاملہ کیاجائے اگر اس میں کوئی مسلمان بھی شریک ہے تومطلقاحرام قطعی ہے کہ قمار ہے اور اس پر جو زیادت ہے ربا، اور دونوں حرام وسخت کبیرہ ہیں۔ اور اگر اس میں کوئی مسلمان اصلاً نہیں تو یہاں جائزہے جبکہ اس کے سبب حفظ صحت وغیرہ میں کسی معصیت پرمجبورنہ کیا جاتا ہو ۔ جواز اس لئے کہ اس میں نقصان کی شکل نہیں، اگر بیس برس تک زندہ رہا پورا روپیہ بلکہ مع زیادت ملے گا، اور پہلے مرگیا تو ورثہ کو اور زیادہ ملے گا “

(فتاوی رضویہ، جلد23، صفحہ595، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    اس فتوے میں امام اہل سنت علیہ الرحمۃ نے مسلمان اور کافر کے درمیان ہونے والی انشورنس کو جائز قرار دیا ہے ، لیکن اس کی وجہ یہ ارشادفرمائی کہ اس میں مسلمان کے نقصان کی کوئی شکل نہیں ہے ، لہٰذا یہ جائز ہے اورسوال میں جو صورت بیان کی گئی ہے ، وہاں مسلمان کے نقصان کی بھی شکل اور امکان (possibility) موجود ہے، لہٰذا کافر کمپنی سے بھی  یہ معاہدہ کرنا ، جائز نہیں ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم