Khana Khane Ke Baad Khilaal Kiya,To Nikli Hui Cheez Khana Kaisa?

کھانے کے بعد خلال کیا تو نکلی ہوئی چیز کھانا کیسا؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13358

تاریخ اجراء:20شوال المکرم 1445ھ/29 اپریل 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ   کیا اس طرح کی کوئی حدیث پاک ہے کہ خلال کے ذریعہ جو چیز نکلے اسے پھینک دو اور زبان کے ذریعہ جو نکلے، اسے نگل لو؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں!  سوال میں ذکر کردہ حدیث سننِ ابی داؤ، سنن ابنِ ماجہ اور دیگر کئی کتبِ حدیث میں موجود ہے  کہ کھانے کے بعد خلال کیا جائے ۔ خلال کے ذریعہ جو کھانے کے ذرات دانتوں سے نکلیں ،  ان کو پھینک دیا جائے اور جو زبان کے ذریعہ دانتوں سے نکل آئے وہ نگل لیا جائے، البتہ حدیث پاک ہی میں اس حکم کے ساتھ یہ بھی موجود ہے کہ جس نے یہ عمل کیا اچھا کیا اور جس نے نہ کیا ، اس پر کوئی حرج نہیں۔  جس سے یہ واضح ہوتا ہے  کہ یہ حکم وجوبی نہیں بلکہ اختیار پر ہے ، لہٰذااگر کوئی اس کے خلاف کرتا ہےیعنی زبان کے ذریعے نکلنے والے ذرات کو پھینک دیتا ہے اور خلال کے ذریعے نکلنے والے ذرات نگل لیتا ہے،تو وہ گناہ گار نہیں بشرطیکہ ان  ذرات میں خون نہ ملا ہو۔

    زبان کے ذریعہ نکلنے والے ذرات نگلنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ اس میں خون وغیرہ شامل ہونے کا احتمال نہیں ہوتا جبکہ  خلال کے ذریعہ نکلنے والے کھانے کے ذرات   میں خون وغیرہ مل جانے کا احتمال ہوتا ہے۔  جس لکڑی وغیرہ کے ذریعہ خلال کیا جائےگا وہ مسوڑوں میں لگ جاتی ہے جس سے خون نکل آتا ہے، لہٰذا اس احتمال کے پیشِ نظر اسے پھینکنے کا حکم دیا گیا۔  اگر خلال کے ذریعے  نکلنے والے ذرات میں خون شامل ہوگیا ہو، تو اس صورت میں اسے نگلنا جائز نہیں۔

   سننِ ابی داؤد،سنن ابنِ ماجہ وغیرہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث پاک میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”من أكل فما تخلل فليلفظ ومالاك بلسانه فليبتلع من فعل فقد أحسن ومن لا فلا حرج “یعنی  جس نے کھانا کھایا، تو جو خلال سے نکالے وہ تھوک دے اور جوزبان سے نکالے وہ نگل لے، جو کرے تو اچھا ہے اور جو نہ کرے، تو گناہ نہیں۔(سننِ ابی داؤد، حدیث 35، جلد 1، صفحہ 9، مطبوعہ:بیروت)

   امام ابو جعفر طحاوی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ حدیثِ پاک نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:” كان ما أمر به من هذه الأشياء المذكورة في هذا الحديث مما أتبع أمره بكل واحد منها« ولا حرج » أي : ولا حرج عليكم أن لا تفعلوا ما أمرتكم به من ذلك إذ كان ما أمرهم به منه على الاختيار لا على الإيجاب “یعنی اس حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں کا حکم دیا ان میں سے ہر ایک کے بعد ”لا حرج“ کے الفاظ ارشاد فرمایا یعنی تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم وہ کام نہ کرو جس کا تمہیں حکم دیا گیا کیونکہ جس چیز کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سےحکم دیا گیا وہ اختیاری  ہے ، نہ کہ وجوبی ۔(شرح مشکل الآثار، جلد1، صفحہ 127،مطبوعہ:بیروت)

   فتاوی ھندیہ میں ہے:”قال الفقيه : إذا تخلل الرجل فما خرج من بين أسنانه ، فإن ابتلعه جاز وإن ألقاه جاز “یعنی فقیہ ابو اللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جب کوئی شخص خلال کرے، تو جوچیز دانتوں سے نکلے ، اگر اسے نگل لیا، تو جائز ہے اور پھینک دیا ، تو بھی جائز ہے۔(فتاوی ھندیہ، جلد5،صفحہ 345، مطبوعہ:مصر)

   بہارِ شریعت میں ہے :” کھانا کھانے کے بعد خلال کرنے میں  جو کچھ دانتوں   میں   سے ریشہ وغیرہ نکلا بہتر ہے کہ اسے پھینک دے اور نگل گیا تو اس میں   بھی حرج نہیں   اور خلال کا تنکا یا جو کچھ خلال سے نکلا اس کو لوگوں   کے سامنے نہ پھینکے ،بلکہ اسے لیے رہے جب اس کے سامنے طشت آئے، اس میں   ڈال دے ، پھول اور میوہ کے تنکے سے خلال نہ کرے۔ “(بھارِ شریعت، جلد3، صفحہ 382، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”خلال سے نکالے ہوئے میں خون سے مخلوط ہونے کا احتمال ہے،لہذا احتیاطًا نہ کھائے اور زبان سے نکالے ہوئے میں یہ احتمال نہیں وہاں اس احتیاط کی ضرورت نہیں۔یہ اس صورت میں ہے کہ خون سے مخلوط ہونے کا صرف احتما ل ہو یقین نہ ہو،اگر یقین ہوتو نگلنا حرام ہےکیونکہ بہتا خون حرام بھی ہے اورنجس بھی،خواہ دوسرے کا“(مراۃ المناجیح، جلد1، صفحہ 265، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم