Kisi Ko Apna Gurda Dena Kaisa Hai ?

کسی کواپنا گردہ دینا شرعی طور پر کیسا ہے؟

مجیب:عبدہ المذنب محمد نوید چشتی عفی عنہ

فتوی نمبر: WAT-1642

تاریخ اجراء: 24شوال المکرم1444 ھ/15مئی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     اگربیٹے کے دونوں گردے خراب ہوگئے ہوں توکیاوالداپناایک گردہ بیٹے کودے سکتاہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   انسان اپنے اعضاکامالک نہیں ہے ،لہذاوہ اپناکوئی عضوکسی دوسرے کوکسی طرح نہیں دے سکتاتوصورت مسئولہ میں والداپناگردہ بیٹے کونہیں دےسکتا،اگرچہ بیٹے کے دونوں گردے خراب ہوگئے ہیں ۔

   مجلس شرعی کے فیصلے نامی کتاب میں ہے "اس سے قبل والے سمینار میں یہ بحث آئی تھی کہ انسان کی جان یا عضو کی ہلاکت جب یقینی یا قریب بہ یقین ہو، اور دوسرے انسان کا عضولگانے سے اس شخص کا شفایاب ہونا متوقع ہو۔ جیسا کہ آج کل یہ طریقہ علاج جاری ہے تو شرعا یہ جائز ہے یا نہیں؟

   مندوبین نے اس پر اظہار خیال کیا کہ دوسرے زندہ انسان کا عضو کاٹ کر استعمال کرنا حالت اضطرار میں بھی جائز نہیں ہوتا۔ ہاں! مضطر کو اس مقدار میں حرام یا مردار حتی کہ انسان میت کا گوشت کھانے پینے کی اجازت  ہوتی ہے جس سے وہ جاں بر ہو سکے۔ یہ اجازت اس وقت ہے جب اس کھانے پینے سے اس کی نجات یقینی ہو۔ اس بنیاد پر یہ غور ہوا کہ آج کے تبدیلی عضو والے علاج سے شفا یقینی ہوتی ہے یا نہیں ؟

   بعض حضرات کی یہ رائے سامنے آئی کہ یقینی تو نہیں مگر مظنون بہ ظن غالب ہے۔

    اس پر یہ کلام ہوا کہ پھر یہ علاج واجب ہونا چاہیے کہ اگر نہ کرے تو گنہ گار ہو جیسے حالت مخمصہ میں حرام  نہ کھائے پیے  اور مرجائے تو گنہ گار ہوتا ہے۔ حالاں کہ علاج کا حکم یہ نہیں ۔ بلکہ کتابوں میں یہ موجود ہے کہ علاج نہ کیا اور مرگیا تو گنہ گار نہ ہو گا۔ اس لیے کہ علاج سے شفا یقینی نہیں۔

   پیوند کاری سے کامیابی کی جو شرح دی گئی ہے، وہ ہمارے حق میں اولاً یقینی نہیں۔ ثانیاً یہ شرح بحیثیت مجموعی ہے۔ آپریشن کے مرحلہ سے شفا تک گزرنے میں اتنے مراحل ہیں کہ ہر ہر مرحلہ پر ہلاکت کا  خطرہ ہوتا ہے ، پھر مریض خاص کے حق میں زیادہ سے زیادہ ظن اور امید کا حصول ہوتا ہے قطع و یقین کا  نہیں، پھر بہت سے حریص، دنیا طلب، اور ظالم و خائن ڈاکٹروں کی زیادتیاں الگ ہیں۔ جن کے ظلم و خیانت اور بے اعتدالی و بے احتیاطی  کے واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں۔

   دوسری طرف جو عضو عطا  کرنے والا تند رست و توانا انسان ہے خاص اس کے حق میں کوئی حاجت و  اضطرار نہیں کہ وہ اپنا عضو دوسرے کو دے، پھر اسے کیوں کر اجازت ہوگی کہ وہ اپنے عضو کی بے حرمتی یا اس کی خرید و فروخت کا معاملہ کرے خصوصاجب کہ وہ اپنے جسم و جان کا مالک بھی نہیں کہ اسے ہبہ کرنے یا بیچنے  کا اختیار ہو۔

ان حالات کے پیش نظر عضو انسان سے عضو انسان کی پیوند کاری کے جواز کا حکم بہت مشکل ہے۔ بلکہ  بر وقت، عدم جواز ہی واضح ہے اور ہم اسی کا حکم دیتے ہیں۔ واللہ تعالی اعلم"(مجلس شرعی کے فیصلے،ج 1،ص 183،184،دار النعمان،پاکستان)

   اسی مقام پراس  کتاب کے حاشیہ میں ہے:”انسان اپنے اعضاء آنکھ ،گردے ،پھیپڑے وغیرہ کا مالک نہیں ،یہ تمام اعضاء بندے کے پاس اللہ عزوجل کی امانت ہیں ،لہٰذا انسان اپنےیہ اعضاء نہ تو دوسرے کے ہاتھ بیچ سکتا ہے،نہ کسی کو ہبہ یا خیرات کر سکتا ہے ،نہ ہی اپنے کسی عزیز وغیرہ کےلیے بعد وفات یہ اعضاء دینے کی وصیت کر سکتا ہے ۔یوں ہی دوسرا شخص کسی انسان سے اعضاء خرید سکتا ہے نہ ہی اعضاء  کاہبہ ،صدقہ یاوصیت قبو ل کرسکتا ہے ،نہ لے سکتا ہے ۔“( مجلس شرعی کے فیصلے،جلد 1،صفحہ 184،ھند)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم