Kya Asar Ke Baad Parhna Likhna Mana Hai?

کیا عصر کے بعدپڑھنا، لکھنا منع ہے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Hab-0100

تاریخ اجراء:19شوال المکرم1444ھ/10 مئی 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ كيا کسی حدیث میں عصر کے بعد لکھنے اور پڑھنے سے منع کیا گیا ہے ، کیا ہم عصر کے بعد کوئی تحریری کام کرسکتے ہیں یا اپنا سبق وغیرہ یاد کرسکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عصر اور مغرب کے درمیان  مطالعہ،تحریری کام اور سبق یاد کرنا بلا کراہت جائز ہے۔عصر کے بعد لکھنے پڑھنے کی ممانعت کے بارے میں سرکارِدو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے کوئی روایت منقول نہیں۔ہاں  حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور بعض علماء مثلاً:امام احمد بن حنبل اور امام شافعی علیہما الرحمۃ سے اس کی ممانعت منقول ہے،لیکن وہ بھی طبی نقطہ کے پیش نظر  ہے کہ عصر کے بعد روشنی کم ہوجاتی ہے اور کم روشنی میں لکھنے پڑھنے سے آنکھوں کے کمزور ہوجانے کا اندیشہ ہے۔

   مقاصد حسنہ و کشف الخفاء میں ہے ،واللفظ للآخر:”من أحب حبيبتيه  أو كريمتيه فلا يكتبن بعد العصر ۔ قال القاري لا أصل له في المرفوع ۔ قال ولعل المعنى بعد خروج العصر من غير أن يكون عنده سراج ۔ قال وقد أوصى الإمام أحمد بعض أصحابه أن لا ينظر بعد العصر إلى كتاب ۔ أخرجه الخطيب قال وهو من كلام الطب ، كما قال الشافعي : الوراق إنما يأكل من دية عينيه ۔ وفي معناه الخياط وأرباب الصنائع “جسے اپنی آنکھیں پیاری ہوں،وہ عصر کے بعد ہرگز نہ لکھے۔ملا علی قاری علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں :مرفوع حدیث میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔مزید فرمایا کہ ہوسکتا ہے اس کا مطلب یہ ہو کہ جس کے پاس چراغ نہ ہو وہ عصر  کا وقت نکلنے کے بعد نہ لکھے۔ نیز امام احمد بن حنبل  نے اپنے کسی ساتھی کو وصیت کی تھی کہ عصر کے بعد کتاب نہ پڑھنا۔  خطیب نے  اسے بیان کیا ،اور فرمایا یہ  منع فرمانا  طبی لحاظ سے ہے،جیسا کہ امام شافعی علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایا :کاتب اپنی آنکھوں کے بدلے کھاتا ہے۔اسی معنی میں درزی اور اس قسم کے دیگر کام کاج والے بھی ہیں۔(المقاصد الحسنہ،صفحہ 626،دار الکتاب العربی)(کشف الخفاء،جلد 02،صفحہ 222،دار احیاء التراث العربی)

   لیکن یہ اندیشہ بھی  اس وقت ہے،جبکہ عصر کے بعد چراغ یا لائٹ وغیرہ کے بغیر کم روشنی یا اندھیرے میں مطالعہ کیا جائے ، اوراگر  روشنی میں مطالعہ کیا جائے، تو پھر آنکھوں کے کمزور ہونے کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔فی زمانہ بجلی کی سہولیات اور مصنوعی روشنیوں کےسبب تو یہ اندیشہ تقریبا ًنہ ہونے کے برابررہ جاتا ہے،لہٰذا عصر کے بعد لکھنا پڑھنا بلاکراہت جائز ہے۔

   علامہ زبیدی علیہ الرحمۃاوراد ووظائف کی ترتیب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:” (وورده الرابع بعد العصر في عمل السمع ليروح فيه العين) عن المطالعه (واليد) عن الكتابه (فالمطالعه والكتابه بعد العصر ربما اضر ذلك البصر) وينسب الي علي رضي اللہ عنه من احب كريمتيه فلا يكتبن بعد العصر وهذا قد يختلف باختلاف الاشخاص والاماكن فرب شخص قوي البصر قد لا يمنع في ذلك ورب مكان مشرق لا يضر البصر بعد العصر لانتشار ضوئه“یعنی:چوتھا ورد عصر کے بعد سننے کا ہے،تاکہ آنکھوں کو مطالعہ سے اور ہاتھ کو کتابت سے آرام ملے۔کیونکہ بعض اوقات عصر کے بعد پڑھنا اور لکھنا نظروں کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف یہ روایت منسوب کی جاتی ہے  کہ جسے اپنی آنکھیں پیاری ہوں ،وہ عصر کے بعد ہرگز نہ لکھے۔خیال رہے کہ افراد  و مقامات کے اعتبار سے یہ مختلف ہوجاتا ہے۔کہ بعض قوی البصارت اشخاص کو یہ مانع نہیں ہوتا ،اسی طرح بہت سی روشن  جگہوں  میں روشنی ہونے کی وجہ سے عصر کے بعد پڑھنے وغیرہ سے آنکھوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔(اتحاف السادۃ للمتقین،جلد 05،صفحہ 499،دار الکتب العلمیہ)

   ہاں   بعض علماء سے عصر کے بعد مطالعہ اور تصنیف  کو ترک کرنا منقول ہے،جیسے سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہہمہ وقت تالیف و تصنیف  وفتاوی نویسی میں مشغول رہتے تھے،حتی کہ  صرف نماز پنجگانہ کے لیے تشریف لے جاتے  تھے،لیکن نماز عصر کے بعد باہر ہی پھاٹک میں تشریف رکھتے اور لوگوں سے ملاقات کیا کرتے تھے ۔(حیات اعلی حضرت از ملک العلماء ظفر الدین قادری ملخصا ،صفحہ 94،مکبتہ  نبویہ لاھور)

   اس کی وجہ یہ ہے کہ دن بھرکی  تھکاوٹ،مطالعہ اور تصنیف سے طبیعت میں اکتاہٹ آجاتی ہے،جو عصر کے بعد  مطالعہ وغیرہ چھوڑ کر دیگر مشاغل اختیار کرنے سے بہتر انداز میں دور ہوجاتی  ہےاوراس کی وجہ سے مغرب کے بعد سےرات دیر تک مطالعہ وغیرہ کی طرف  طبیعت زیادہ مائل ہوتی ہے۔

   لیکن یہ معاملہ بھی  طبیعتوں کے لحاظ سے مختلف  ہے  کہ اگرچہ بعض  لوگوں کے لیےعصر کے بعد کا وقت نشاط کا نہیں ہوتا،لیکن بعض لوگوں کے لیےہوتا ہے،یہی وجہ ہے  کہ بعض علما سے عصر کے بعد بھی تدریس مطالعہ وغیرہ ثابت ہے۔لہٰذا عصر کے بعد ان امور کو سر انجام دینے میں کوئی حرج نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم