Kya Biwi Apne Shohar Ka Naam Le Sakti Hai ?

کیا بیوی شوہر کو نام لے کر پکار سکتی ہے؟

مجیب:  ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12270

تاریخ اجراء:     30 ذو القعدۃ الحرام 1443 ھ/30جون 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بیوی اگر شوہر کو نام لے کر پکارے،تو شرعاً اس میں کوئی حرج تو نہیں؟؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق بیوی کا شوہر کو نام لے کر پکارنا، مکروہ اور خلافِ ادب  ہے۔ لہذا جب کبھی شوہر کو مخاطب کرنے کی نوبت آئے تو عورت کو چاہیے کہ مہذب انداز میں اور ادب کے دائرہ  کار میں رہتے ہوئے احسن انداز میں شوہر کو مخاطب کرے۔

   تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:(ويكره أن يدعو الرجل أباه وأن تدعو المرأة زوجها باسمه) اهـ بلفظه ۔“یعنی مرد کا اپنے باپ کو،  یونہی عورت کا اپنے شوہر کو اس کا  نام لے کر پکارنا، مکروہ ہے۔

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت  ردالمحتار میں ہے :بل لا بد من لفظ يفيد التعظيم كيا سيدي ونحوه لمزيد حقهما على الولد والزوجة، وليس هذا من التزكية، لأنها راجعة إلى المدعو بأن يصف نفسه بما يفيدها لا إلى الداعي المطلوب منه التأدب مع من هو فوقه۔“ترجمہ:  ”بلکہ ضروری ہے کہ ایسےکسی  لفظ سے مخاطب کیا جائے کہ جو تعظیم کا فائدہ دے جیسا کہ یاسیدی اور اسی کی مثل دیگر الفاظ، تاکہ بیٹے اور زوجہ پر باپ اور شوہر کا  جو حق ہے وہ مزید واضح ہوسکے۔ البتہ تعظیم کے ان الفاظ سے پکارنے میں تزکیہ (اپنی تعریف کا پہلو)نہیں ہے، کیونکہ تزکیہ تو اس وقت پایا جائے گا کہ جب یہ مدعو (ہماری مثال میں شوہر اور باپ مدعو ہیں یعنی ان کو بلانے کی بات ہو رہی ہے ) کی طرف لوٹے اس طرح کہ  وہ مدعو اپنے آپ کو ان الفاظ سے متصف کرے کہ جس سے تزکیہ کا فائدہ حاصل ہو نہ کہ یہ داعی (بلانے والے)کی طرف لوٹے کہ جس سے مطلوب ہی اسے ادب سکھانا ہے اس کا ادب کہ جو اس سے بڑھ کر ہے۔“(ردالمحتار مع الدر المختار ، کتاب الحظر و الاباحۃ ، ج09، ص690، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں  ہے: ’’ باپ کو اس کا نام لے کر پکارنا مکروہ ہے ،کہ یہ ادب کے خلاف ہے۔ اسی طرح عورت کو یہ مکروہ ہے، شوہر کو نام لے کر پکارے۔ بعض جاہلوں میں یہ مشہور ہے کہ عورت اگر شوہر کا نام لے لے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے، یہ غلط ہے۔شاید اسے اس لئے گڑھا ہو کہ اس ڈر سے کہ طلاق ہو جائے گی شوہر کا نام نہ لے گی۔“                          (بہارِ شریعت،ج03، ص658-657، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم