Kya Cream Se Rang Gora Karna Ya Make Up Se Chehra Badal Dena Musla Hai ?

کیا کریم وغیرہ کے ذریعے رنگ گورا کرنا یا میک اپ کے ذریعے اصل چہرہ بدل دینا مثلہ ہے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:25

تاریخ اجراء: 29ذوالحجۃ الحرام1442ھ09اگست2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   (1)عورت کا چہرے پربہت زیادہ  میک اپ کرنا کیساکہ جس سے اصلی چہرہ ہی تبدیل ہوجائے،کیا یہ مُثلہ ہے؟

   (2)رنگ گوراکرنے کے لئے عورت کاچہرے وغیرہ پر کوئی  دوا یا کریم استعمال کرناکیسا،کیا یہ بھی مُثلہ ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)عورت کاپاک چیزوں سے میک اپ کرنافی نفسہ تو شرعاً جائز ہے،کہ یہ زینت  کا ایک ذریعہ ہےاور عورت کا شریعت کے دائرے میں رہ کر زینت حاصل کرنا،جائزہے،بلکہ بعض صورتوں میں ثواب ہے،جیسے اگر بیوی شوہر کے لئے میک اپ وغیرہ کرے،تو مستحب اورباعثِ ثواب  ہے۔عورت کو زینت اختیار کرنے، بالخصوص شوہر کے لئے سجنے،سنورنے کی ترغیب احادیث میں موجود ہے۔ یونہی  شادی کے موقع پر دلہن کو سجانابھی  سنت قدیمہ اورمتعدد روایات سے ثابت ہے۔لہذا عورت کسی بھی جائز ذریعہ سے زینت حاصل کرناچاہے،توکر سکتی ہے۔

   اورجہاں تک میک اپ سےاصل چہرہ تبدیل ہوجانے کا معاملہ ہے،تو اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر میک اپ  کی وجہ سےاصل  چہرہ توتبدیل ہوجائے،لیکن وہ’’Beauty makeup ‘‘یعنی ایسا میک اپ ہو کہ جس کی وجہ سے چہرہ خوبصورت دکھائی دےاور عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے،تو یہ بھی ناجائز و گناہ نہیں اور اسےمُثلہ بھی نہیں کہہ سکتے،کیونکہ مُثلہ  بدن میں تبدیلی کر کے اسے کاٹنے،بگاڑنے یا  بد نُما کر دینے کو کہتے ہیں،خواہ وہ اعضاء کاٹ کر ہو یا چہرہ پر سیاہی یا کوئی اورچیز مَل کر ہو اور یہ حرام و گناہ اور شیطانی کام ہے، جبکہ’’Beauty makeup‘‘کی وجہ سے چہرے میں بگاڑ اور بد نمائی پیدا نہیں ہوتی،بلکہ چہرہ خوبصورت دکھائی دیتا ہے،لہذا یہ مثلہ نہیں۔

   البتہ اگر عورت اس طرح میک اپ کرتی ہے کہ جس کی وجہ سےچہرہ واقعی بگڑا ہوااور بدنُمادکھائی دے جیسے ’’Horror makeup، Zombie makeup،Fx makeup،Scary makeup اور Halloween makeup‘‘ وغیرہ میں ہوتا ہےکہ اس میں دوسروں کی خاص توجہ حاصل کرنے کے لئے عجیب و غریب انداز سے میک اَپ کیا جاتا ہے،جس کی وجہ سے چہرہ واقعی بگڑاہوا،بد نما اور ڈراؤنا سا دکھائی دیتاہے،توایسا میک اپ کرنا ضرورحرام وگناہ اور مثلہ میں داخل ہے۔

   (2)رنگ گورا کرنے کے لئے عورت کاچہرے وغیرہ پر دوا یا کریم استعمال کرنا شرعاًجائز ہے، جبکہ ان  میں  کسی ناپاک چیز کی آمیزش نہ ہو، کیونکہ یہ بھی زینت کا ایک ذریعہ ہےاور عورت کسی بھی جائز ذریعہ سے زینت حاصل کرسکتی ہے۔نیز دوایا کریم سے رنگ گورا کرنا مُثلہ میں داخل نہیں،کیونکہ اوپر بیان ہو چکا کہ مُثلہ بدن میں تبدیلی کر کے اسے کاٹنے،  بگاڑنے یا  بد نُما کر دینے کو کہتے ہیں،جبکہ رنگ گورا کرنے والی دوا یا کریم استعمال کرنے کے بعد چہرے میں بگاڑ اور بد نمائی پیدا نہیں ہوتی،بلکہ چہرےمیں نکھار اور خوبصورتی نظر آتی ہے،لہذا یہ مثلہ نہیں۔

   دونوں جوابات کے جزئیات درج ذیل ہیں:

   زینت جائز ہونے کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:﴿ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللہِ الَّتِیۡۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ۔۔الخ ترجمہ کنز الایمان:تم فرماؤ:کس نے حرام کی اللہ کی وہ زینت، جو اس نے اپنے بندوں کے لئے نکالی؟ (پارہ8،سورۃ الاعراف، آیت 32)

   اس آیت کے تحت تفسیرِ صراط الجنان میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے حوالہ سے ہے:’’آیت میں لفظِ’’زینت‘‘زینت کی تمام اقسام کو شامل ہے،اسی میں لباس اور سونا چاندی بھی داخل ہے۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس چیز کو شریعت حرام نہ کرے،وہ حلال ہے۔حرمت کے لئے دلیل کی ضرورت ہے،جبکہ حلت کے لئے کوئی دلیل خاص ضروری نہیں۔‘‘(تفسیرِ صراط الجنان،تحت ھذہ الاٰیۃ،ج3،ص303،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

   حدیثِ پاک میں عورت کو مہندی لگانے کی تاکید ہے اور یہ  بھی زینت ہے۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی،وہ فرماتی ہیں:’’ان هندا  ابنۃ عتبة قالت: يا نبی اللہ! بايعني، قال:لا ابايعك حتى تغيّري كفيك كانهما كفا سبع‘‘ترجمہ:بیشک ہندہ بنتِ عتبہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کی:اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!مجھے بیعت کر لیجئے۔ارشاد فرمایا:میں تجھے بیعت نہیں کروں گایہاں تک کہ تو اپنی ہتھیلیاں(مہندی کے رنگ سے)تبدیل نہ کر لے،(مہندی کے بغیرتو)گویا یہ کسی درندے کی ہتھیلیاں ہیں۔ (سنن ابی داؤد،کتاب الترجل، باب فی الخضاب للنساء،ج2،ص220،مطبوعہ  لاھور)

   جوعورت شوہر کو خوش کرنے کے لئے بناؤسنگارکرے ، وہ بہترین عورت ہے۔چنانچہ حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی،وہ فرماتے ہیں:’’ قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: ایّ النساء خير؟قال: التی تسرّه اذا نظر۔۔الخ‘‘ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی عورت بہتر ہے؟ارشاد فرمایا:وہ  کہ جب شوہر اسے دیکھے تو وہ شوہر کو(اپنے اخلاق و محبت  اور  بناؤ سنگاروغیرہ سے)خوش کردے ۔ (سننِ نسائی،کتاب النکاح، باب ای النساء خیر،ج2،ص71،مطبوعہ لاھور)

   شادی کے موقع پر دلہن کو سجانا کئی احادیث سے ثابت ہے۔چنانچہ حضرت اسماء بنتِ یزید رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی،وہ فرماتی ہیں:’’ انا قينت عائشة للنبی صلى الله عليه وسلم حتى ادخلتها عليه ‘‘ترجمہ:میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاکی رخصتی کے وقت ان کا بناؤسنگار کیا،یہاں تک کہ میں انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس  لے گئی۔(المعجم الکبیر للطبرانی،ج23،ص126،مطبوعہ قاھرہ)

   اسی طرح حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا خود اپنی رخصتی کے متعلق ارشاد فرماتی ہیں:’’ لما قدمنا المدينة جاءني نسوة وانا العب على ارجوحة وانا مجمة فذهبن بي، فهيانني وصنعنني، ثم اتين بي رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ۔۔ الخ‘‘ ترجمہ: جب ہم مدینہ منورہ آئے، تو میرے پاس چند عورتیں آئیں، اس وقت میں جھولا جھول رہی تھی اور میرے بال بہت گھنے تھے، وہ مجھے لے گئیں، مجھے بنایا سنوارا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں۔( سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی الارجوحۃ،ج 2 ، ص 333،مطبوعہ لاھور)

   اوراعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’عورتوں کو سونے چاندی کا زیور پہنناجائز ہے۔۔بلکہ عورت کا اپنے شوہر کے لئے گہنا پہننا، بناؤ سنگار کرنا باعث اجر عظیم اور اس کے حق میں نماز نفل سے افضل ہے۔۔اور دلھن کو سجانا تو سنت قدیمہ اور بہت احادیث سے ثابت ہے،بلکہ کنواری لڑکیوں کو زیور ولباس سے آراستہ رکھنا، کہ انکی منگنیاں آئیں،یہ بھی سنت ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج22،ص126،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   عورت کا رنگ گورا کرنے کے لئے کوئی دوایا کریم استعمال کرنا،جائز ہے۔چنانچہ حدیثِ پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ  عورتیں اپنے چہرے کے نکھار میں اضافہ کرنے کےلئے ’’ایلوا‘‘نامی  چیز استعمال کرتی تھیں۔’’ایلوا‘‘ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رس ہوتا ہے،جوچہرے پر لگانےسے اسے نکھارتااور خوبصورت بنادیتاہے۔ زینت کےلئے عورتوں میں اس کا استعمال معروف تھا، اسی لئے حدیث میں  وفات کی عدت گزارنے والی ایک  خاتون کو چہرے پر ’’ایلوا‘‘ لگانے کی ممانعت کا حکم بتایا گیا،البتہ ضرورت کے تحت اسے بھی رات کو لگانے کی اجازت دی گئی۔اس سے معلوم ہوا کہ عدت والی شرعی رکاوٹ نہ ہو، تو خواتین کو زینت حاصل کرنے کےلئےایلوایااس کے علاوہ کوئی اوردوایاکریم کے استعمال کی اجازت ہے۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:”دخل علیّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حین توفی ابو سلمۃ و قد جعلت علی عینی  صبرا، فقال:ماھذا یا ام سلمۃ ؟ فقلت:انما ھو صبر  یا رسول اللہ! لیس فیہ طیب، قال:انہ یشب الوجہ فلا تجعلیہ الا باللیل و تنزعینہ بالنھار“ترجمہ:جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہوچکاتھا(اور میں ان کی عدت میں تھی)تومیرے پاس حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے اور میں نے اپنے چہرے پرایلوا لگا رکھا تھا، توحضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا: اے ام سلمہ! یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ ایلوا ہے،جس میں خوشبو نہیں ۔ حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ چہرے کو نکھارتا ہے، پس اسے نہ لگاؤ، مگر (ضرورتاً لگانا پڑے) تو رات کو  لگاؤ اور دن کو اتار لو۔ (سنن ابی داؤد، ج2، ص292، الرقم2305،مطبوعہ بیروت)

   اس حدیثِ پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے:’’ قال:ما هذا ای:التلطخ؟ وانت في العدةيا ام سلمة !قلت:انما هو صبر ليس فيه طيب ای:عطر ،فقال: انه۔۔يشب ای: يوقد الوجه ويزيد في لون و علل المنع به، لان فيه تزيينا للوجه وتحسينا له‘‘ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ لیپ کس چیز کا ہے؟حالانکہ تو عدت میں ہے اے امِ سلمہ!میں نے کہا:یہ ایلواہے،اس میں خوشبو نہیں ۔پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:یہ چہرے کو نکھارتا ہے اور چہرے کی رنگت میں اضافہ کرتا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت کی وجہ یہی بیان فرمائی،کیونکہ اس میں چہرے کو زینت دینا اور اسے خوبصورت بنانا ہے(حالانکہ معتدہ کو ان چیزوں کی ممانعت ہے)۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰ المصابیح،کتاب النکاح،باب العدۃ،ج6،ص458تا459،مطبوعہ کوئٹہ)

   چہرے پر مختلف دوائیوں کا استعمال کرنے کے بارے میں عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے:’’ ولا يمنع من الادوية التي تزيل الكلف وتحسن الوجه‘‘ترجمہ:اور ان دوائیوں کا استعمال منع نہیں،جو جھائیاں(چہرے کے سیاہ داغ) ختم کرتی ہیں اور چہرے کو خوبصورت بناتی ہیں۔(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری،کتاب فضائل القران،ج 14، ص179،مطبوعہ  ملتان)

   اوراعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے دلہا،دلہن کے جسم پر اُبٹن(ایک خوشبودار مسالہ جس سے جسم صاف، خوشبوداراور ملائم ہوجاتا ہے) ملنے کے بارے میں سوال ہوا،تو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:’’ اُبٹن ملنا جائز ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج22،ص245،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   مثلہ اللہ پاک کی پیدا کی ہوئی چیز میں خلاف شرع تبدیلی کرنا ہے، جو حرام وگناہ اور شیطانی کام ہے۔اس بارے میں قرآن پاک میں ہے:﴿وَلَاُضِلَّنَّہُمْ وَلَاُمَنِّیَنَّہُمْ وَلَاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الۡاَنْعامِ وَلَاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللہِترجمہ کنز الایمان:(شیطان نے کہا)قسم ہے میں ضرور بہکا دوں گا اور ضرور انہیں آرزوئیں دلاؤں گا اور ضرور انہیں کہوں گا کہ وہ چوپایوں کے کان چیریں گے اور ضرور انہیں کہوں گا کہ وہ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزیں بدل دیں گے۔ (پ5،س النساء، آیت 119)

   امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ مثلہ کی وضاحت کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں:’’وقال ابن الانباری رحمه الله:۔۔ وهو تغيير تبقى الصورة معه قبيحة وهو من قولهم’’ مثّل فلان بفلان‘‘ اذا قبح صورته اما بقطع اذنه او انفه او سمل عينيه او بقر بطنه،فهذا هو الاصل ‘‘ترجمہ:اور ابنِ انباری رحمہ اللہ نے فرمایا:۔۔وہ(یعنی مثلہ) اللہ پاک کی بنائی ہوئی چیز میں ایسی تبدیلی ہے جس کے ساتھ صورت بد نما ہوجائے اور یہ اہلِ عرب کے اس قول سے ماخوذ ہے کہ فلاں نے فلاں کا مثلہ کردیا(یہ اس وقت بولا جاتا ہے)جب وہ کان یا ناک کاٹنے یا آنکھیں پھوڑنے یا پیٹ پھاڑنے کے سبب اس کی صورت کو بد نماکر دے۔پس مثلہ کی یہی اصل ہے۔ (تفسیرِ کبیر،ج19،ص11،مطبوعہ دار احیاء التراث،بیروت)

   اسی بارے میں البنایہ شرح ہدایہ میں ہے:’’و المثلة بضم الميم ما يتمثل منه فی تبديل خلقه وبتغير هيئته سواء كان بقطع عضو او تسويد وجه وتغيره، هكذا فسره الاكمل اخذه من  الدراية  وقال تاج الشريعة: المثلة ما يتمثل فيه فی القبح، قال الاترازی نحوه وزاد: واصلها قطع الاعضاء ويريد الوجه، قلت:المثلة:اسم لمصدر المثل بفتح الميم وسكون الثاء،يقال مثلت بالحيوان امثل مثلاً:اذا قطعت اطرافه وشوهت به ومثلت بالعبد اذا جدعت انفه او اذنه او مذاكيره او شيئاً من اطرافه‘‘ ترجمہ:اور مُثلہ میم کے ضمہ(پیش) کے ساتھ ہے،جوکسی کی فطرت کو تبدیل کرنے اوراس کی ہیئت کو بدلنےکی صورت میں کیا جاتا ہے ،اب برابر ہے کہ یہ کسی عضو کو کاٹنے کے سبب ہویا چہرے کو سیاہ اور اسے تبدیل کرنے کے سبب ہو۔ایسے ہی اکمل نے درایہ سے نقل کرتے ہوئے تفسیر بیان کی ہے اور تاج الشریعہ نے فرمایا:مثلہ وہ ہے جو بد نمائی کی صورت میں کیا جاتا ہے۔اترازی نے اسی کی مثل بیان کیا ہے اوریہ الفاظ زیادہ کیے کہ مثلہ کی اصل اعضاء کاٹنا ہے اوروہ  اس سے مراد چہرہ لیتے ہیں۔میں کہتا ہوں کہ مثلہ مثل مصدر(جو میم کے فتحہ یعنی زبر اور ثاء کے سکون کے ساتھ ہے،اس) کا اسم ہے،کہا جاتا ہے کہ میں نے حیوان کا مثلہ کیا (یہ اس وقت بولا جاتا ہے)جب اس کے اعضاء کاٹ دیے جائیں اور اسے بدشکل بنا دیا جائے اور (کہا جاتا ہےکہ )میں نے غلام کا مثلہ کیاجب اس کی ناک یا کان یا شرمگاہ یا دیگر اعضا میں سے کوئی چیز کاٹ دی جائے۔(البنایہ شرح ھدایہ،ج1،ص527،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   اوراعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’منہ کیچڑ سے ساننا صورت بگاڑنا ہے اور صورت بگاڑنا مُثلہ اور مُثلہ حرام ہے ، یہاں تک کہ جہاد میں حربی کافروں کوبھی مُثلہ کرنا صحیح حدیث میں منع فرمایا،جن کے قتل کاحکم فرمایا، اُن کے بھی مثلہ کی اجازت نہیں دی۔ افسوس اُن مسلمانوں پر کہ باہم کھیل میں ایک دوسرے کے منہ پر کیچڑ تھوپتے ہیں یاہنسی سے کسی کے سوتے میں اس کے منہ پر سیاہی لگاتے ہیں ، یہ سب حرام ہے اور اس سے پرہیز فرض۔‘‘(فتاوٰی رضویہ ،ج 3ص667،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم