Kya Maldar Logon Par Maal Ka Panchwan Hissa Sadat Ko Dena Lazim Hai?

کیا مالدار لوگوں پر مال کا خُمس(پانچواں حصہ) ساداتِ کرام کو دینا لازم ہے ؟

مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1278

تاریخ اجراء: 07رجب المرجب1445 ھ/19جنوری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   خُمس کس کو کہتے ہیں؟ میں نے سنا ہے کہ مالدار لوگوں پر لازم ہے وہ اپنے مال کا پانچواں حصہ نکال کر ساداتِ کرام کو پیش کریں ، کیایہ بات درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اس مقام پرخُمس ایک خاص اصطلاح ہے اور اس سے مراد جنگ میں حاصل ہونے والے مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ ہے ، جس کے متعلق حکمِ شرع یہ ہے کہ یہ یتیموں، مسکینوں اور مسافرین میں تقسیم کیا جائے گا البتہ بنی ہاشم و بنی مطلب کے یتیم، مسکین اور مسافرین اگر فقیر ہوں تو دوسروں کے بہ نسبت یہ اس خُمس کے زیادہ حقدار ہیں کہ دیگر تو زکوٰۃ بھی لے سکتے  ہیں جبکہ یہ افراد  زکوٰۃ نہیں لے سکتے، البتہ اگر بنی ہاشم و بنی مطلب  کے لوگ غنی ہوں، تو ان غنی لوگوں کا خمس میں کوئی حق نہیں۔

   واضح رہے کہ مالدار لوگوں پر یہ لازم نہیں کہ وہ اپنے مال کا پانچواں حصہ نکال کر ساداتِ کرام کو پیش کریں، البتہ اگر سادات کرام مالی اعتبار  سے کمزور ہیں ، تو ان کی مالی امداد کرنا ضرور اجرِ عظیم کا باعث ہے کہ اس پاک گھرانے کے لوگ زکوٰۃ نہیں لے سکتے کیونکہ زکوٰۃ مال کا میل ہے اور ان پاک  ، ستھرے  لطیف، اہلبیت طیب و طہارت کی شان اس سے ارفع و اعلی ہے کہ ایسی چیزوں سے آلودگی کریں۔

   بہارِشریعت میں ہے:”غنیمت کا پانچواں حصہ جو نکالا گیا  اوس کے تین حصے کئے جائیں، ایک حصہ یتیموں کے لئے اور ایک مسکینوں اور ایک مسافروں کے لئے ۔۔۔بنی ہاشم و بنی مطلب کے یتامیٰ اور مساکین اور مسافر اگر فقیر ہوں ، تو یہ لوگ بہ نسبت دوسروں کے خمس کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ اور فقرا تو زکوٰۃ بھی لے سکتے ہیں اور یہ نہیں لے سکتے اور یہ لوگ غنی ہوں ، تو خمس میں ان کا کچھ حق نہیں۔“(بہارِ شریعت، جلد 2،صفحہ 438۔439، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم