Kya Shaitan Pehle Muallim ul Malakoot Farishton Ka Ustad Tha ?

کیاشیطان پہلےمُعَلِّمُ المَلَکوت(فرشتوں کا استاد)تھا؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0184

تاریخ اجراء: 20  صفر المظفر 1445ھ/07 ستمبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہم نے بچپن سے یہ بات سن رکھی ہے کہ شیطان مُعَلِّمُ المَلَکوت یعنی فرشتوں کا استادتھا، لیکن ابھی  حال ہی میں ایک پوسٹ وائرل کی گئی  جس میں اس بات پر یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ شیطان کا مُعَلِّمُ المَلَکوت ہونا ،  کسی بھی  مستند کتاب میں موجود نہیں ہے ،یہ بات خالصتاً  بے اصل  اور جھوٹ پر مبنی ہے، کیا یہ اعتراض درست ہے  اور کیا واقعی شیطان کبھی فرشتوں کا استادنہیں تھا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شیطان کا مُعَلِّمُ المَلَکوت ہونا   کئی معتبر علمائے کرام علیہم الرحمۃ نے اپنی کتب میں بیان فرمایا ہے ، اس تفصیل کے ساتھ کہ  شیطان اولا ً   فرشتوں کا سردار،ان میں سب سے بڑا عبادت گزار اور ان کا استاد تھا، پھر جب اس نے تکبر کی وجہ سے حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، تو اس کو بارگاہِ الٰہی سے  دُھتکار دیا گیا اور وہ  ہمیشہ کے لیے ملعون و مردود ہوگیا ، لہٰذا شیطان کا معلم الملکوت ہونابے اصل اورجھوٹ نہیں۔

   مشہور مفسرِ قرآن حضرت ابو الفداء اسماعیل بن مصطفٰی حقی حنفی (متوفى: 1127ھ) اپنی تفسیر”روح البیان“ میں فرماتے ہیں :”واظهر صفة قهره بإبليس إذ امره بسجوده لآدم بعد ان كان رئيس الملائكة ومقدمهم ومعلمهم وأشدهم اجتهادا فى العبادة ۔۔۔ فابى ان يسجد لآدم استكبارا وقال انا خير منه فلعنه اللّٰه وطرده إظهارا للقهر“ترجمہ: اور اللہ نے شیطان کو حضرت آدم علیہ السلام کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دے کر اس پر اپنی صفت قہر کو ظاہر فرمایا بعد اس کے کہ  شیطان  فرشتوں کا سردار،ان میں سب سےآگے،ان کا استاد اور ان میں سب سے زیادہ عبادت میں کوشش کرنے والا تھا۔۔تو اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو تکبر کی وجہ سے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور کہنے لگا کہ میں اس سے بہتر ہوں، تو اللہ نے اس پر لعنت فرمائی اور اپنے قہر کو ظاہر کرنے کے لیے اس کو اپنی بارگاہ  سےدھتکار دیا۔(روح البیان،سورۃ الکھف،آیت51،ج05،ص257،مطبوعہ دار الفکر ،بیروت)

   امام تاج الدین عبد الوہاب بن تقی الدین سبکی  شافعی (متوفى: 771ھ) اپنی کتاب ”طبقات الشافعیۃ الکبرٰی“ میں فرماتے ہیں :” انه كان معلم الملائكة ثم سقط عن درجة الكمال بمخالفة أمر واحد اغترارا  بما عنده من العلم “ترجمہ: بلا شبہ شیطان  فرشتوں کا استادتھا،  پھر اس نے اپنے علم پر تکبر کرتے ہوئے اللہ پاک کے ایک حکم کی مخالفت کی تو وہ درجہ کمال  سے گرگیا ۔(طبقات الشافعیۃ الکبرٰی،ج06،ص274، ھجر للطباعۃ و النشر و التوزیع )

   امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان (متوفى: 1340ھ)نے بھی ”فتاویٰ رضویہ شریف“ میں متعدد مقامات پر شیطان کے معلم الملکوت ہونے کا ذکر کیا ہے ،چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں :”عالم دین وہی ہے جو سنی صحیح العقیدہ ہو، بدمذہبوں کے علماء علمائے دین نہیں،یوں تو ہندؤوں میں پنڈت اور نصارٰی میں پادری ہوتے ہیں اور ابلیس کتنا بڑا عالم تھا، جسے معلم الملکوت کہا جاتاہے، قال اللہ تعالیٰ﴿ وَ اَضَلَّہُ اللہُ عَلٰی عِلْمٍ ﴾ یعنی اللہ نے اس کو علم کے باوجود گمراہ کردیا ۔“ (فتاویٰ رضویہ ،ج14،ص612،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :”واقعی معلم طائفہ نے بغلامئ معلم الملکوت ہمارے مولیٰ پر کذب وعیوب کا افتراء ممقوت کیا۔“(فتاویٰ رضویہ ،ج15،ص403،رضا فاؤنڈیشن لاھور)

   ایک اور مقام پر روحوں کو بلانے کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :” اس کا امتحان بہت آسان ہے جن علوم سے یہ عامل آگاہ نہ ہو ،ان کے کسی جاننے والے کی روح بلائے اور ان علوم کا سوال کیجئے، مثلا: ہندسہ و ہیأت کے واسطے نصیر طوسی کی روح بلائے اگر وہ دقائق علوم ہندسہ کا جواب دے دے جن سے یہ عامل ناواقف ہو، تو احتمال صدق ہوسکتاہے ،اگرچہ دوسرا احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معلم الملکوت کا کوئی کرشمہ ہو ۔“(فتاویٰ رضویہ ،ج21،ص605،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اسی طرح فتاویٰ رضویہ میں امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا  کہ  مرتد استاد کا شاگرد  پر کیا حق ہے ؟ تو اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :”اس قسم کے استاد کا اپنے شاگرد پروہی حق ہے جو شیطان لعین کا فرشتوں پرہے کہ فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں اور قیامت کے دن گھسیٹ گھسیٹ کر دوزخ میں پھینک دیں گے۔ “(فتاوٰی رضویہ ،ج 23،ص707،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت میں ہے :” امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ کی نزع کا جب وقت آیا، شیطان آیا کہ اس وقت شیطان پوری جان توڑ کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح اس (میت) کا اِیمان سلب ہو جائے ،اگر اس وقت پِھر گیا ،تو پھر کبھی نہ لوٹے گا ۔ اُس نے اِن سے پوچھا کہ تم نے عمر بھر مُناظروں مُباحثوں میں گزاری، خدا کو بھی پہچانا؟ آپ نے فرمایا : بیشک خدا ایک ہے ۔ اس نے کہا اس پر کیا دلیل؟آپ نے ایک دلیل قائم فرمائی، وہ خبیث مُعَلِّمُ الْمَلَکُوت (یعنی فرشتوں کا استاد) رہ چکا ہے ، اس نے وہ دلیل توڑ دی ۔ اُنہوں نے دوسری دلیل قائم کی اُس نے وہ بھی توڑ دی ، یہاں تک کہ 360 دلیلیں حضرت نے قائم کیں اور اس نے سب توڑ دیں ۔ اب یہ سخت پریشا نی میں اور نہایت مایوس ۔ آپ کے پیر حضرت نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ کہیں دُور دراز مقام پر وُضو فرما رہے تھے ، وہاں سے آپ نے آواز دی : ” کہہ کیوں نہیں دیتا کہ میں نے خدا کو بے دلیل ایک مانا۔ “(ملفوظات اعلیٰ حضرت،ص493 ،494،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم