Maghrib Ke Baad Bachon Ka Ghar Se Bahar Jana Kaisa ?

مغرب کے وقت بچوں کا گھرسے باہر جانا

مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2158

تاریخ اجراء: 21ربیع الثانی1445 ھ/06نومبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا بچے مغرب کے وقت باہر جا سکتے ہیں یا مغرب کے بعد والدین کے ساتھ دادا دادی کے گھر جانے کے بعد گھر میں دیر سے آسکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      جس حدیث شریف میں بچے کو رات کے وقت باہر نکلنے سے روکا گیا ہے وہ ذیل میں ترجمہ کے ساتھ نقل کی جاتی ہے۔ بخاری شریف میں ہے: ”عن جابر رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا استجنح الليل، أو قال: جنح الليل، فكفوا صبيانكم ، فإن الشياطين تنتشر حينئذ، فإذا ذهب ساعة من العشاء فخلوهم“ ترجمہ:  حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  جب رات آجائے۔ یا فرمایا: جب رات آنے کے قریب ہوجائے تو اپنے بچوں کو روکوکیونکہ شیاطین اس وقت منتشر ہوتے ہیں پھر جب عشا کا کچھ وقت چلا جائے  تو چھوڑ دو۔(صحیح البخاری، جلد4، صفحہ123، حدیث 3280، دار طوق النجاة)

         کفوا کی جگہ بعض احادیث میں اکفتوا کے الفاظ ہیں جس کے معنی ”ملادو“ کے ہیں اور بعض روایات میں لاترسلوا کے الفاظ ہیں جس کے معنی ”نہ چھوڑو“ کے ہیں۔ عمدۃ القاری میں ہے: ” أي: ضموهم وامنعوهم من الانتشار، وفي رواية: فاكفتوا، ومادته: كاف وفاء وتاء مثناة من فوق، ومعناه: ضموهم إليكم، وكل من ضممته إلى شيء فقد كفته، وفي رواية: ولا ترسلوا صبيانكم“ ترجمہ:  کفو سے یہ مراد ہے کہ بچوں کو اپنے ساتھ لگالو اور انہیں منتشر ہونے سے باز رکھو۔ ایک روایت میں" اکفتوا" کے الفاظ ہیں جس کا مادہ کاف، فا اور تا ہےاور اس کا معنی  یہ ہے کہ بچوں کو اپنے ساتھ لگالو۔ ہر وہ چیز جسے تم کسی چیز کے ساتھ ملادو اس کے لئے یہی مادہ استعمال ہوتا ہے۔ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اپنے بچوں کو نہ چھوڑو۔ (عمدۃ القاری، جلد15، صفحہ173، دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

   احادیث کے الفاظ اور سیاق وسباق سے واضح ہوجاتا ہےکہ یہاں حدیث شریف میں بچوں کو رات آنے پر تنہا چھوڑنے کی ممانعت ہے  لہذا ضرورت ہو تو اپنے ساتھ لےکر جانے میں حرج نہیں۔نیز یہ حکم وجوب کے لئے نہیں ہے ، بلکہ مصلحت کی طرف رہنمائی کرنے کے لئے ہے تو مناسب ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ اسے مستحب کہہ سکتے ہیں۔ مرقاۃ المفاتیح میں ہے: ”قال القرطبي: جميع أوامر هذا الباب من باب الإرشاد إلى المصلحة، ويحتمل أن تكون للندب لا سيما فيمن ينوي امتثال الأمر“ ترجمہ:  علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ: اس موضوع کے تمام احکام مصلحت کی طرف  رہنمائی کرنے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ امر استحباب کےلئے ہے بالخصوص اس شخص کے حق میں جس کی نیت فرمان رسول پر عمل کی ہو۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد7، صفحہ2760،  دار الفكر، بيروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم