Majlis Mein Nabi Pak Ke Zikr Ke Baad Durood Na Parha Tu Hukum

جس مجلس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کانام لیا اور درود نہ پڑھا ،توکیا بعد میں پڑھنا ہوگا ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8715

تاریخ اجراء: 19 جُمَادَی الثانی1445ھ/02 جنوری 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ مجلسِ ذکر میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا نام مبارک پڑھنے یا سننے کی صورت میں  ایک مرتبہ درود وسلام پڑھنا واجب  اور اس سے زائد مستحب ہے۔ سوال  یہ ہے کہ اگر کوئی بھول جائے یا کسی بھی وجہ سے نہ پڑھ سکے، تو کیا بعد میں بطورِ قضاء پڑھے گا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جلسہ ذکر میں  خود نام اقدس لے یا کسی دوسرے سے سنے، ایک مرتبہ درود شریف پڑھنا واجب  ہے۔ اگر کوئی نہ پڑھ سکا، مثلاً: بھول گیا  اور مجلس تبدیل ہو گئی، پھر بعد میں یاد آیا،  تو  بعد میں اُس رہ گئے درود شریف کے بدلے بطورِ قضاء  ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے، نیز اگر نام مبارک سن کر درود پڑھنا واجب ہو گیا اور کوئی  فرد جان بوجھ کر چھوڑتا رہا، تو یہ مختلف وعیدات اور محرومیوں کا باعث ہے، نیز اِس صورت میں بطورِ قضاء دوبارہ پڑھنے کے ساتھ توبہ کرنا بھی ضروری ہو گا۔

   علامہ  علاؤ  الدین  حصکفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ (وِصال:1088ھ/1677ء)  لکھتے  ہیں :’’ تصير دينا  بالترك، فتقضى لأنها حق عبد كالتشميت‘‘ ترجمہ:درود وسلام پڑھنا رہ جائے، تو یوں ترک ہونے کے سبب ذمہ پر دَین ہو جائے گا، جسے قضا کیا جائے گا، کیونکہ یہ حق العبد ہے، جیسا کہ چھینک کے جواب کا حکم ہے۔(کہ وہ بھی حق العبد  اور  اُس کا ایک مرتبہ  جواب دینا واجب اور نہ دینے کی صورت میں قضاء کا حکم  ہے۔) (درمختار مع ردالمحتار ، جلد03، صفحہ386، مطبوعہ   دار الثقافۃ والتراث، دمشق)

   اِسی عبارت کو شیخ عبداللہ سراج   حسینی شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1422ھ/2001ء) نے یوں نقل کیا:’’ تصير دَيْناً بالترك فتقضى، لأنها حق عبدٍ كالتشميت، أي: لأنها حقه صلى اللہ عليه وسلم  فيقضى كالتشميت للعاطس‘‘ ترجمہ: درود وسلام ترک کرنے کے سبب دَین ہو جائے گا، جسے قضا کیا جائے گا، کیونکہ یہ حق العبد ہے، جیسا کہ چھینک کے جواب کا حکم ہے۔ یعنی عبارت سے مراد یہ ہے کہ درود وسلام، سرکارِ دوجہاں صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حق ہے، لہذا اِس کی بھی قضاء کی جائے گی، جیسا کہ چھینکنے والے کو جواب دینے کا حکم ہے۔ (الصلاۃ علی النبی، صفحۃ 58، مطبوعۃ مکتبۃ دار الفلاح، شام)

   اور چھینک کے جواب کے متعلق مسئلہ  یہ ہے کہ ایک مرتبہ فوراً جواب دینا واجب ہے اور اُس میں بلاعذرِ شرعی تاخیر گناہ ہے، نیز   اگر اصلاً جواب نہ دیا، تو بعد میں جواب دینا اور بلاوجہِ شرعی تاخیر کے سبب توبہ کرنا، دونوں ضروری ہیں، چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1252ھ /1836ء) لکھتے ہیں:’’(ورد السلام وتشميت العاطس على الفور) ظاهره أنه إذا أخره لغير عذر كره تحريما ولا يرتفع الإثم بالرد بل بالتوبة‘‘ترجمہ:سلام اور چھینک کا جواب فوراً واجب ہے، اس کا ظاہر یہ ہے کہ جب بلا عذر جواب میں تاخیر کی تو مکروہ تحریمی ہوا اور گناہ صرف بعد میں  جواب دے دینے سے ختم نہیں ہوگا،  بلکہ توبہ بھی کرنی ہوگی۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 22،کتاب الحظر والاباحۃ،  صفحہ 126 ،  دار الثقافۃ والتراث، دمشق)

   اس مسئلہ میں درود وسلام کو چھینک کے جواب  پر قیاس کرنا، فقط قضاء کے معاملے میں ہے، جملہ احکامات میں نہیں،  یعنی درود وسلام تو زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے، جبکہ چھینک کا پوری زندگی میں ایک مرتبہ نہیں، بلکہ ہر مجلس میں  ایک مرتبہ  جواب دینا فرض عملی (واجب) ہے۔ علامہ اَحمد طَحْطاوی  حنفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1231ھ /1815ء) نے لکھا:’’(کالتشمیت) التشبیہ  فی القضاء فقط لا فی کل الاحکام لان الصلاۃ فرض فی العمر مرۃ قطعا والزائد علی المرۃ واجب علی الصحیح، والتشمیت فرض عملی فی کل مجلس مرۃ، والزائد علی المرۃ مندوب‘‘ ترجمہ:جیسا کہ چھینک کا جواب دینا۔  یہ تشبیہ صرف قضاء کی حد تک ہے۔ تمام احکامات میں نہیں، کیونکہ درود پڑھناعمر میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے اور قولِ صحیح کے مطابق اِس سے زائد واجب ہے، جبکہ ہر مجلس میں ایک مرتبہ چھینک کا جواب دینا، فرض عملی  اور ایک دفعہ کے بعد مستحب ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد1، صفحہ 269، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’ہر جلسہِ ذکر میں دُرود شریف پڑھنا واجب، خواہ خود نامِ اقدس لے یا دوسرے سے سُنے اور اگر ايک مجلس میں سو بار ذکر آئے،  تو ہر بار دُرود شریف پڑھنا چاہیے، اگر نام اقدس ليا يا سُنا اور دُرود شریف اس وقت نہ پڑھا، تو کسی دوسرے وقت میں اس کے بدلے کا پڑھ لے۔(بھار شریعت، جلد01، حصہ03، صفحہ533، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم