Mard Aur Aurat Ke Liye Bracelet Pehnna Kaisa ?

مرد و عورت کے لیے بریسلٹ پہننا کیسا ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:42

تاریخ اجراء: 18ذو الحجۃ الحرام1442ھ29جولائی 2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ مرد و عورت کے لئے کلائی پر بریسلٹ پہننا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بریسلٹ (breslet) کلائی پر پہننے والے زیور کو کہتے ہیں۔ مارکیٹ میں مرد و عورت ہر دو کے لئے سونے، چاندی اور دیگر دھاتوں مثلاً لوہے، تانبے، پیتل وغیرہ کے بریسلٹ ملتے ہیں، یونہی دھات کے علاوہ چمڑے، ریگزین، ربڑ اور ڈوریوں پر مشتمل مختلف چیزیں بھی دستیاب ہیں۔ چمڑے اور ریگزین وغیرہ سے بنے پَٹوں کو بھی بریسلٹ  کہا جاتا ہے، البتہ جو ربڑ اور ڈوریوں سے بنے ہوتے ہیں، انہیں کبھی بریسلٹ کہتے ہیں اور کبھی بینڈ (band)، جیسے رِسٹ بینڈ (wrist band)، فرینڈ شِپ بینڈ (friendship band) وغیرہ۔

   اب پوچھی گئی صورت کا جواب یہ ہے کہ عورت کے لئے کسی بھی دھات (مثلاً سونا، چاندی، لوہے، پیتل وغیرہ) یا دھات کے علاوہ کسی اور چیز مثلاً چمڑے، ریگزین، ڈوریوں اور ربڑ وغیرہ کے زنانہ بریسلٹ یا بینڈ پہننا جائز ہے، لیکن ایسے ڈیزائن کے بریسلٹ یا بینڈ جنہیں مرد ہی استعمال کرتے ہیں، عورتیں نہیں پہنتیں، عورت کا انہیں پہننا مردوں سے مشابہت کی وجہ سے ناجائز ہو گا یا کسی ایسی قسم کے بریسلٹ جو فاسقہ فاجرہ عورتوں کی پہچان ہوں، انہیں پہننا بھی ناجائز ہے۔

   رہا مردوں کا معاملہ، تو مردوں کے لئے کسی بھی دھات کا بریسلٹ یا دھات کے علاوہ کسی بھی چیز سے بنا ہوا زنانہ بینڈ پہننا، ناجائز و حرام اور گناہ ہے، البتہ دھات کے علاوہ کسی چیز کا مردانہ بینڈ پہننا فی نفسہ تو جائز ہے، لیکن اس میں بھی یہ خیال رکھنا ضروری ہو گا کہ اگر ان میں سے کسی بریسلٹ یا بینڈ پہننے کی وجہ سے  فساق کے ساتھ مشابہت پیدا ہوتی ہو، تو اس کا پہننا منع ہو جائے گا۔

   مسند امام احمد بن حنبل میں ہے، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’الحریر والذھب حرام علی ذکور امتی وحل لاناثھم ‘‘ ترجمہ: ریشم اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام ہیں اور ان کی عورت کے لئے حلال ہیں ۔(مسند امام احمد بن حنبل، جلد 32، صفحہ 276، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

   عورت کے لئے ریشم، سونےاور چاندی کے زیورات پہننے کے متعلق علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں:’’واما النساء فیباح لھن لبس الحریر وجمیع انواعہ وخواتیم الذھب وسائر الحلی منہ ومن الفضۃ‘‘ ترجمہ : بہر حال عورتوں کے لئے ہرقسم کا ریشم، سونے کی انگوٹھیاں، اور سونے اور چاندی کے تمام زیورات پہننا مباح ہے۔(شرح النووی علی مسلم، جلد 14، صفحہ 32، مطبوعہ بیروت)

   عورتوں کے لئے سونے، چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں کے زیورات پہننے پر فی زمانہ جید علماءنے عمومِ بلویٰ کی وجہ سے جواز کا فتوی دیا ہے۔

   سنن ابی داؤد میں حضرت سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی، فرماتے ہیں:’’ جاء الى النبي صلى الله عليه وسلم وعليه خاتم من شبه، فقال له: ما لي اجد منك ريح الاصنام، فطرحه، ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: ما لي ارى عليك حلية اهل النار، فطرحه، فقال: يا رسول الله، من اي شيء اتخذه؟ قال: اتخذه من ورق، ولا تتمه مثقالا‘‘ ترجمہ: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیتل کی انگوٹھی پہنے ہوئے حاضر ہوئے، آپ نے فرمایا:'کیا بات ہے کہ تم سے بتوں کی بو آتی ہے؟ انھوں نے وہ انگوٹھی پھینک دی، پھر لوہے کی انگوٹھی پہن کر آئے، فرمایا:کیا بات ہے کہ تم جہنمیوں کا زیور پہنے ہوئے ہو؟ اسے بھی پھینکا اور عرض کی: یارسول اﷲ! کس چیز کی انگوٹھی بناؤں؟ فرمایا:چاندی کی بناؤ اور ایک مثقال پورا نہ کرو‘‘۔(سنن ابی داؤد، جلد 2، صفحہ 228، مکتبہ لاھور )

   سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :’’ہاتھ خواہ پاؤں میں تانبے، سونے، چاندی ،پیتل، لوہے کے چھلّے یاکان میں بالی یابُندا یاسونے خواہ تانبے، پیتل،لوہے کی انگوٹھی، اگرچہ ایک تارکی ہو یاساڑھے چارماشے چاندی یا کئی نگ کی انگوٹھی یاکئی انگوٹھیاں، اگرچہ سب مل کر ایک ہی ماشہ کی ہوں کہ یہ سب چیزیں مردوں کوحرام وناجائز ہیں‘‘۔ (فتاوی رضویہ،جلد7،صفحہ307،مطبوعہ،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   بہار شریعت میں ہے: ’’مرد کو زیور پہننا مطلقاً حرام ہے، صرف چاندی کی ایک انگوٹھی جائز ہے، جو وزن میں ایک مثقال یعنی ساڑھے چار ماشہ سے کم ہو اور سونے کی انگوٹھی بھی حرام ہے‘‘۔(بھار شریعت، حصہ 16، صفحہ 426، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مردوں کا عورتوں سے اور عورتوں کا مردوں سے مشابہت اختیار کرنے کے متعلق بخاری شریف میں ہے: ’’لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المتشبھین من الرجال بالنساء والمتشبھات من النساء بالرجال‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ مشابہت کرنے والے مردوں اور مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے‘‘۔                   (صحیح بخاری، کتاب اللباس، جلد 2، صفحہ 874، مطبوعہ  کراچی)

   اس حدیث ِ مبارکہ کے تحت شرح صحیح بخاری لابن بطال میں ہے:’’لا يجوز للرجال التشبه بالنساء فى اللباس والزينة التى هى للنساء خاصة، ولا يجوز للنساء التشبه بالرجال فيما كان ذلك للرجال خاصة‘‘ ترجمہ:مردوں کو عورتوں کے ساتھ انکے لباس او ر انکی خاص زینت میں مشابہت اختیار کرنا جائز نہیں ،اسی طرح عورتوں کو مردوں کی خاص زینت میں انکی مشابہت اختیار کرنا جائز نہیں ۔(شرح صحیح بخاری لابن بطال،جلد9،صفحہ 140، مطبوعہ ریاض)

   فساق کے ساتھ مشابہت کے متعلق صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:   ’’کفار و فساق و فجار سے مشابہت بُری ہے اور اہل صلاح و تقویٰ کی مشابہت اچھی ہے، پھر اس تشبہ کے بھی درجات ہیں اور انہیں کے اعتبار سے احکام بھی مختلف ہیں۔ کفار و فساق سے تشبہ کا ادنیٰ مرتبہ کراہت ہے‘‘۔   (بھارشریعت، جلد3، صفحہ 407، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کسی مباح کام کےمتعلق فرماتے ہیں: ’’مگر اس حالت میں کہ یہ کسی شہر میں آوارہ و فساق لوگوں کی وضع ہو، تو اس عارض کے سبب اس سے احتراز (کرنا) ہو گا‘‘۔(فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 200، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم