Mard Ka Aurat Ke Kapre Jote Aur Deegar Ashya Istemal Karna Kaisa Hai ?

مرد کا عورت کے کپڑے جوتے اور دیگر اشیا استعمال کرنا کیسا ہے ؟

مجیب:     محمد عرفان مدنی عطاری

مصدق: مفتی محمد ھاشم خان  عطاری

فتوی نمبر:41

تاریخ اجراء: 17صفرالمظفر1439ھ/07نومبر2017ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مردکاعورت کے کپڑے،جوتے وغیرہ اشیاء کواستعمال کرنا کیساہے ،اوراس میں محرم و غیرمحرم اورعمرکاکوئی فرق ہوگایانہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مردخواہ محرم ہویاغیرمحرم اسے زنانہ کپڑے،جوتے یاکوئی اورزنانہ چیزاپنے استعمال میں لانا،جائزنہیں کہ اس میں عورتوں سے مشابہت ہے اورعورتوں سے مشابہت اختیارکرنے والوں پرحدیث پاک میں لعنت آئی ہے ،پس جب علت مشابہت ہے تومحرم وغیرمحرم ہردوکے لیے ناجائزہے کہ مشابہت دونوں صورتوں میں ہے ،اسی طرح عمرکے جس حصے میں استعمال کیاجائے گاتوتشبہ پایاجائے گالہذابوڑھاکرے یاجوان ہردوصورت میں ناجائزہے حتی کہ اگرچھوٹے بچے کو والدین وغیرہ پہنائیں گے تویہ پہنانے والے گنہگارہوں گے ۔چنانچہ صحیح بخاری، جامع ترمذی، سنن ابو داؤد، ابن ماجہ و دیگر کتب احادیث میں حضرت سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی، فرماتے ہیں: ''لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المتشبھین من الرجال بالنساء، والمتشبھات من النساء بالرجال'' ترجمہ:اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے لعنت فرمائی ان مردوں پرجوعورتوں سے مشابہت اختیارکریں اوران عورتوں پرجومردوں سے مشابہت اختیارکریں۔( صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب المتشبھون بالنساء، والمتشبھات بالرجال، ج2، ص874، مطبوعہ کراچی)

   بخاری شریف کے ترجمۃ الباب کے تحت علامہ عینی علیہ الرحمہ عمدۃ القاری میں ارشاد فرماتے ہیں: ''تشبہ الرجال بالنساء فی اللباس والزینۃ التی تختص بالنساء مثل لبس المقانع والقلائد والمخانق والاسورۃ والخلاخل والقرط ونحو ذلک مما لیس للرجال لبسہ۔۔۔۔۔ وکذلک لا یحل للرجال التشبہ بھن فی الافعال التی ھی مخصوصۃ بہن کالانخناث فی الأجسام والتأنیث فی الکلام والمشی'' ترجمہ : مردوں کا عورتوں سے لباس میں مشابہت اختیار کرنا منع ہے، اور ایسی زینت میں مشابہت اختیارکرنامنع ہے، جو عورتوں کے ساتھ خاص ہے، مثلا اوڑھنی، ہار، مالا، کنگن، پازیب، بالی اوران کی مثل وہ چیزیں، جو مرد نہیں پہنتے۔۔۔۔ اسی طرح مردوں کو عورتوں کے ساتھ ان افعال میں تشبہ جائز نہیں جو عورتوں کے ساتھ خاص ہوں، جیسے جسموں میں لچک اور گفتگو اور چلنے میں زنانہ پن پیدا کرنا ''۔( عمدۃ القاری، کتاب اللباس، باب المتشبھون بالنسائ، والمتشبھات بالرجال، ج22، ص41، مطبوعہ بیروت)

   ابو داؤد، سنن نسائی و ابن ماجہ وغیرہ میں خاص طور پہ پہننے والی چیزوں کے متعلق حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں : ''لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الرجل یلبس لبسۃ المراۃ، والمراۃ تلبس لبسۃ الرجل'' ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی اس مرد پر کہ عورت کا پہناوا پہنے، اور اس عورت پر کہ مرد کاپہناواپہنے ''( سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، باب فی لباس النساء، ج 2، ص212، مطبوعہ لاھور)

   جوتا پہننے کے متعلق بھی سنن ابو داؤد میں واضح نص موجود ہے، چنانچہ حضرت ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ سے مروی، فرماتے ہیں: ''قیل لعائشۃ رضی اللہ عنھا: ان امراۃ تلبس النعل، فقالت: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الرجلۃ من النساء'' ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی گئی کہ ایک عورت مردانہ جوتا پہنتی ہے، فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردانی ( وضع اختیار کرنے والی ) عورتوں پر لعنت فرمائی۔( سنن ابو داؤد، کتاب اللباس، باب فی لباس النساء، ج2، ص 212، مطبوعہ لاھور)

   اس کے تحت مراۃ المناجیح میں ہے: '' معلوم ہوا کہ مردوں عورتوں کے جوتوں میں بھی فرق چاہئے، صورت، لباس، جوتا، وضع قطع سب میں ہی عورت مردوں سے ممتاز رہے۔''( مراۃ المناجیح، ج6، ص176، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   فتاوی رضویہ میں ہے "ان حدیثوں سے ثابت ہو اکہ کسی ایک بات میں بھی مرد کو عورت، عورت کو مرد کی وضع لینی حرام وموجب لعنت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گیسوانتہا درجہ شانہ مبارک تک رہتے بس یہیں تک حلال ہے آگے وہی زنانہ خصلت ہے بلکہ علماء نے اس سے بھی ہلکی بات میں مشابہت پر وہی حکم لعنت بتایا۔درمختار میں ہے : غزل الرجل علی ھیأۃ غزل المرأۃ یکرہ ۔ترجمہ:کسی مردکاعورت کے سوت کاتنے کی طرح سوت کاتنا مکروہ ہے۔ردالمحتارمیں ہے :لما فیہ من التشبہ بالنساءوقدلعن علیہ الصلٰوۃوالسلام المتشبھین والمتشبھات۔ اس لئے کہ اس میں عورتوں سے مشابہت ہے۔ اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان مردوں پر لعنت فرمائی (جوعورتوں سے ) مشابہت اختیار کریں، اور ان عورتوں پر بھی لعنت فرمائی جو مردوں سے مشابہت اختیار کریں۔"                                                (فتاوی رضویہ،ج21،ص602،رضافاونڈیشن،لاھور)

   مراۃ المناجیح میں ہے''مرد کا عورتوں کی طرح لباس پہننا،ہاتھ پاؤں میں مہندی لگانا،عورتوں کی طرح بولنا،ان کی حرکات و سکنات اختیارکرنا سب حرام ہے کہ اس میں عورتوں سے تشبیہ ہے،اس پر لعنت کی گئی بلکہ داڑھی مونچھ منڈانا حرام ہے کہ اس میں بھی عورتوں سے مشابہت اورعورتوں کے سے لمبے بال رکھنا،ان میں مانگ چوٹی کرنا حرام ہے کہ ان سب میں عورتوں سے مشابہت ہے،عورتوں کی طرح تالیاں بجانا،مٹکنا،کوے بلانا سب حرام ہے ،اسی وجہ سے۔'' (مراۃ المناجیح، ج6، ص152، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   نابالغ لڑکوں کوعورتوں والی چیزپہنانے والاگنہگارہوگا،اس کے حوالے سے درمختارمیں ہے "ویکرہ للولی الباس الخلخال او السوار لصبی"ترجمہ:اورولی کے لیے مکروہ ہے بچے کوپازیب یاکنگن پہنانا۔

   اس کے تحت ردالمحتارمیں ہے "قولہ:(للصبی)ای الذکرلانہ من زینۃ النساء" ترجمہ:مصنف نے جوبچہ کہااس سے مذکربچہ مرادہے اورمکروہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ عورتوں کی زینت سے ہے ۔(الدرالمختاروردالمحتار،کتاب الحظروالاباحۃ،فصل فی البیع،ج06،ص420،دارالفکر،بیروت)

   الاشباہ والنظائرمیں ہے "ولا يجوز للولي إلباسه الحرير والذهب۔۔۔۔ ولا أن يخضب يده أو رجله بالحناء"ترجمہ:اورولی کے لیے بچے کوریشم اورسوناپہناناجائزنہیں اورنہ یہ جائزہے کہ اس کے ہاتھ یاپاوں کومہندی کے ساتھ رنگے ۔

   اس کے تحت غمزالعیون میں ہے:"قوله: ولا يجوز للولي إلباسه الحرير إلخ. يعني يكره تحريما أن يلبس الذكور من الصبيان الحرير والذهب لأن التحريم لما ثبت في حق الذكور فكما لا يباح اللبس لا يباح الإلباس"ترجمہ:مصنف نے جوفرمایاکہ بچوں کوریشم وغیرہ پہناناولی کے لیے جائزنہیں اس کامطلب ہے کہ ولی کے لیے مکروہ تحریمی ہے یہ بات کہ وہ مذکربچوں کوریشم اورسوناپہنائے کیونکہ حرمت جب مردوں کے حق میں ثابت ہوئی ہے توجس طرح پہنناجائزنہیں اسی طرح پہنانابھی جائزنہیں ۔(غمزعیون البصائر،احکام الصبیان،ج03، ص330،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

   بہارشریعت میں ہے "لڑکیوں کے کان ناک چھیدناجائزہے اوربعض لوگ لڑکوں کے بھی کان چھدواتے ہیں اور دریاپہناتے ہیں یہ ناجائزہے یعنی کان چھدوانابھی ناجائزاوراسے زیورپہنانابھی ناجائز۔" (بھارشریعت، ج03، حصہ16، ص596،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم