Masnoi Wig lagane Aur Balon Ki Pewand Kari Karane Ka Hukum

مصنوعی وگ لگانے اور بالوں کی پیوند کاری کرانے کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:27

تاریخ اجراء: 22جمادی الاولی1437ھ02مارچ2016ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آج کے دور میں اگر بال گر جائیں تو بالوں کو  پیوند کاری کے ذریعے لگایا جاسکتا ہے ؟نیزاگر پیوند کاری نہ کروائی جائے بلکہ بالوں کی وِگ لگوائی جائے تو شرعاً کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بالوں کی اپنے یا کسی دوسرے انسان کے بالوں سے پیوند کاری کرنا ناجائزو گناہ ہے۔اسی طرح انسانی بالوں کی  وِگ لگانا ناجائز وحرام ہے ،چاہے وہ وگ کسی دوسرےانسان کے بالوں سے بنائی جائےیا اسی انسان کے اپنے بال کاٹ کر وگ بنائی جائے کہ حدیث مبارک میں ایسا کرنے والے پر بھی لعنت کی گئی ہے۔اسی طرح خنزیر کے بالوں کی وگ بھی نہیں لگا سکتے کہ خنزیر نجس العین ہے اور اس کے کسی عضو سے انتفاع جائز نہیں۔ خنزیر کے علاوہ دیگر جانوروں کے بال یا اون وغیرہ سے بنے ہوئے مصنوعی بالوں کی وگ لگانے میں حرج نہیں ۔

   پیوند کاری کرنا اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنا ہے جوشیطانی کام ہےچنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ولاٰمرنھم فلیغیرن خلق اللہ ترجمہ کنزالایمان:(شیطان بولا)میں ضرور انہیں کہوں گاکہ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیز بدل دیں گے۔(پارہ 5 ، سورۃ النساء،آیت119)

   اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے والوں پر حدیث مبارک میں لعنت کی گئی ہے ، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے:”عن عبداللہ قال لعن اللہ الواشمات و المستوشمات والنامصات والمتنمصات والمتفلجات  للحسن المغیرات خلق اللہ “ترجمہ:حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کھال گودنے اور گُدوانے والی،بال اکھاڑنے والی، خوبصورتی کے لیے دانتوں میں مصنوعی فاصلہ بنانے والی اور اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے والی عورتوں پر لعنت فرماتا ہے۔(صحیح مسلم،جلد2،ص205،مطبوعہ کراچی )

   انسانی بالوں کی پیوندکاری کروانا یا انسانی بالوں سے بنی ہوئی وگ استعمال کرنا ، ناجائز ہے ، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:”لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الواصلۃ والمستوصلۃ“ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بال جوڑنے والی اور بال جڑوانےوالی پر لعنت فرمائی ہے۔ (سنن ابی داؤد، جلد2، ص221، مطبوعہ لاھور )امام ابوداؤدرحمۃاللہ علیہ واصلہ اور مستوصلہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :”الواصلۃ التی تصل الشعر بشعر النساء والمستوصلۃ المعمول بھا“ ترجمہ:واصلہ وہ عورت جو بالوں میں عورتوں کے بال ملائے اور مستوصلہ وہ عورت جس کے سر میں بال لگائے جائیں ۔(سنن ابی داود،جلد2،ص221 ،مطبوعہ لاھور )

   عنایہ میں ہے:”الواصلۃ من تصل الشعروالمستوصلۃ من یفعل بھا ذٰلک “ ترجمہ:واصلہ وہ عورت جو بال جوڑے اور مستوصلہ وہ عورت جس کے سر میں بال جوڑے جائیں ۔(العنایہ شرح الھدایہ،جلد6،ص 426،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

   درمختار میں ہے:”وصل الشعر بشعر الاٰدمی حرام سواء کان شعرھا او شعر غیرھا“ ترجمہ: انسانی  بالوں کو کسی انسان کے بالوں میں لگانا حرام ہے، چاہے وہ اس کے اپنے بال ہوں یا کسی اور کے ۔(درمختار مع ردالمحتار، جلد9،ص614،مطبوعہ پشاور )

   خنزیر کے بال لگانا حرام ہے ، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:”الخنزیر فقد روی عن ابی حنیفۃ انہ نجس العین لان اللہ تعالیٰ وصفہ بکونہ رجسا فیحرم استعمال شعرہ وسائر اجزائہ“ترجمہ:خنزیر کے بارے میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ یہ نجس العین ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو گندگی کی صفت سے موصوف کیا ہے پس اس کے بالوں اور تمام اجزاء کا استعمال حرام ہے۔(بدائع الصنائع،جلد1،ص200،مطبوعہ کوئٹہ )

   خنزیر کے علاوہ دوسرے جانوروں کے بالوں سے بنی ہوئی وگ یا مصنوعی بالوں کی وگ لگانے میں حرج نہیں ، چنانچہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے:”لا بأس للمرأۃ ان تجعل فی قرونھا وذوائبھا شیئا من الوبر“ترجمہ: عورت کا اپنے گیسوؤں اور چوٹی میں اونٹ یا خرگوش وغیرہ کے بال لگانے میں کوئی حرج نہیں ۔ (فتاوٰی عالمگیری،جلد5، ص438،مطبوعہ کراچی )

   صدرالشریعۃ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”انسان کے بالوں کی چوٹی بنا کر عورت اپنے بالوں میں گوندھے یہ حرام ہے۔حدیث میں اس پر لعنت آئی ہے بلکہ اس پر بھی لعنت جس نے کسی دوسری عورت کے سر میں ایسی چوٹی گوندھی اور اگر وہ بال جس کی چوٹی بنائی گئی خود اسی عورت کے ہیں جس کے سر میں جوڑی گئی جب بھی ناجائز اور اگر اون یا سیاہ تاگے کی چوٹی بنا کر لگائے تو اس کی ممانعت نہیں ۔“(بھارشریعت،جلد3،ص596،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم