Nazar Bad Se Bachne Ke Liye Ghar Ki Chhat Par Siyah Handya Rakhna

نظر بد سے بچنے کے لیے گھر کی چھت پر سیاہ ہنڈیا، گاڑی کے نیچے جوتا لٹکانا کیسا؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8670

تاریخ اجراء: 28 جُمَادَی الاُوْلیٰ1445ھ/13 دسمبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ بعض لوگ خوبصورت مکان بنائیں، تو چھت پر الٹی ہنڈیا  سیاہ کر کے رکھتے ہیں، اسی طرح نیا رکشہ، وین یا گاڑی لیں،تو اس پر بھی پچھلی طرف پرانا جوتا لٹکاتے ہیں اور ذہن یہ ہوتا ہے کہ ہماری چیز کو نظر نہ لگے۔ اس کی شرعی حقیقت کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نظر لگنا  اِستدلالِ قرآنی   اور حدیث نبوی کی روشنی میں برحق ہے۔اِس کی تاثیر کے بہت سے واقعات تفسیر، حدیث اورتاریخ میں  موجود ہیں، لہٰذا کسی بھی ایسے طریقے سے کہ جو خلافِ شرع نہ ہو، اِس کی تاثیر سے بچنا اور  لگ جانے کی صورت میں علاج کرنا، جائز اور درست ہے۔ پاک وہند میں اِس سے بچنے کے مختلف طریقوں میں سے یہ بھی رائج ہے کہ جس چیز کو نظر لگنے کا اندیشہ ہو، اُس  پر ایسی چیز نصب کرنا کہ   دیکھنے والے کی طبیعت اُسے دیکھتے ہی مُکَدَّر وبیزار  ہو جائے  اور حیرت واِستعجاب کی نظر نہ پڑے، کہ نظرِ استعجاب و حسد سے ”بری نظر“لگنے کا خدشہ زیادہ  ہوتا ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں نئے گھر کی بیرونی دیوار پر سیاہ اُلٹی ہنڈیا رکھنا یا نئی گاڑی پر جوتا لٹکا لینا  ،بری نظر سے بچنے کے لیے ایسا ٹوٹکا ہے کہ جو اسلامی شریعت کے مخالف  یا کسی شرعی ضابطے سے متصادم نہیں، بلکہ اگر ذخیرہ احادیث کا مطالعہ کیا جائے، تو اِس کی اصل موجود ہے، چنانچہ ایک مرتبہ ایک خاتون بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم  میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئی کہ ہم دیہاتی اور کاشت کار لوگ ہیں اور ہمیں یہ اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ  ہمارے لہلہاتے کھیتوں کو بری نظر نہ لگ جائے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ حل ارشاد فرمایا:اپنے کھیتوں کے درمیان عصا پر کھوپڑی لگا دیا کرو، تا کہ بری نظر نہ لگے۔

   نوٹ: بعض لوگ نظرِ بد کا اَصلاً انکار کرتے  اور اِسے فرسودہ نظریات اور دقیانوسی باقیات گردانتے ہیں، لیکن یاد رکھیے کہ جب قرآن وسنت کسی  چیز کی حقانیت کو ثابت کر دیں ،تو اُس کی حقیقت کا عقلی اور منطقی بنیادوں پر نہ سمجھ پانا، ہماری کم فہمی اور عقل کی نارسائی ہے، لہٰذا اِس کوتاہ فہمی کی بنیاد پر مدلولِ قرآن وسنت کاانکار نہیں کیا جا سکتا۔

   امام ابو داؤد سجستانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(وِصال:275ھ/889ء) کتاب المراسیل “ میں حضرت  امام حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے پوتے سے مروی روایت لائے:”أخبرني أبي، أنه سمع عمر بن علي بن حسين، وعبد اللہ بن عنبسة، يذكران الجماجم التي تجعل في الزرع، فقال:عمر بن علي بن حسين: إن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إنما أمر بذلك من أجل العين‘‘ ترجمہ:مجھے میرے والد  نے خبر دی کہ اُنہوں نے حضرت عمر بن علی بن حسین اور عبداللہ بن عنبسہ کو  کھیتوں  میں رکھی جانے والی ”جماجم  کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا۔ اُس گفتگو کے دوران حضرت عمر بن علی بن حسین نے فرمایا:  نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بری نظر سے بچنے کے لیے اِن کا حکم ارشاد فرمایا تھا۔(کتاب المراسیل لابی داؤد، صفحہ 363، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

   اِسی ” کتاب المراسیل“ میں دوسری سند سے تفصیلی روایت نقل کرتے ہوئے لکھا:”عن علي بن عمر بن علي، عن أبيه، عن جده، قال: قدم رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم المدينة فقال: «يا معشر قريش، إنكم تحبون الماشية، فأقلوا منها؛ فإنكم أقل الأرض مطرا، واحترثوا فإن الحرث مبارك، وأكثروا فيه من الجماجم»‘‘ ترجمہ:جب نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے۔ تو فرمایا:اے گروہِ قریش! تم بھیڑ بکریوں کو خوب محبوب رکھتے ہو، لیکن اِس میں کمی کرو، کیونکہ تم اُس زمین میں بستے ہو، جو بہت زیادہ بارانی نہیں، البتہ کھیتی باڑی کیا کرو، کہ کھیتی بڑی برکت والی چیز ہے اور اُن کھیتوں میں ”جماجم“ کی کثرت کرو۔(کتاب المراسیل لابی داؤد، صفحہ 363، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

   ہم نے دونوں روایات کے تراجم میں ”جماجم“ کا لفظ حسبِ عبارتِ عربیہ برقرار  رکھا، کیونکہ لغاتِ حدیث میں اس کے دو معنی بیان ہوئے ہیں اور دونوں معنی منطبق ہو سکتے ہیں۔(1) کھوپڑی ۔ یہ معنی”المنجد“، ”مصباح اللغات“ اور ”النھایۃ  فی غریب الحدیث والاثر“ میں مذکور ہے۔ (2)ہل کا پھال، یعنی جس کے ذریعے زمین کو کاشت کے لیے نرم  کیا جاتا ہے۔ اِسے انگلش میں Ploughshareبھی کہتے ہیں۔ماہرینِ لغاتِ حدیث علامہ ابنِ اَثیر جزری شافعی(وِصال: 606ھ/1210ء)  اور علامہ طاہر پٹنی گجراتی حنفی(وِصال:986ھ/1578ء) رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہما نے یہ معنی بیان کیا ہے۔اِن کی عبارات کوبالترتیب اِن حوالہ جات پر پڑھا جا سکتا ہے۔(النھایۃ فی غریب الحدیث والاثر، 01/289، ط: دار الکتب العلمیہ ،بیروت)(مجمع بحار الانوار، 01/393، ط:  مجلس دائرۃ المعارِف العثمانیہ)

   فقیہ النفس امام قاضی خان اَوْزجندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 593ھ/1196ء) لکھتے ہیں:’’لا بأس بوضع الجماجم في الزرع والمبطخة لدفع ضرر العين لأن العين حق تصيب المال والآدمي والحيوان ويظهر أثره في ذلك عرف ذلك بالآثار  وإذا خاف العين كان له أن يضع فيه الجماجم حتى إذا نظر الناظر إلى الزرع يقع بصره أولا على الجماجم لارتفاعها فنظره بعد ذلك إلى الحرث لايضر لما روي أن امرأة جاءت إلى النبي صلى اللہ عليه و سلم و قالت نحن من أهل الحرث و إنا نخاف عليه العين فأمرها النبي صلى اللہ عليه و سلم أن تجعل فيه الجماجم‘‘ترجمہ:عام کھیتوں یا خربوزے کے فالیز میں نظرِ بد سے حفاظت کے لیے کھوپڑیاں  لگانے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ نظر لگنا برحق ہے، جو کہ مال ومتاع، انسان اور جانوروں سب کو لگ جاتی ہے اور اِن چیزوں میں نظر کا اثر ظاہر ہونا علامات سے معلوم ہوتا ہے ۔ جب کسی کسان کو نظرِ بد لگنے کا اندیشہ ہو ،تو اُسے لکڑی پر کھوپڑی یا  ہل کا پھال لگا کر کھڑا کرنے کی اجازت ہے، تا کہ جب  دیکھنے والا کھیت کو دیکھے، تو  اولاً اُس کی نگاہ کھوپڑیوں  کے بلند ہونے کی وجہ سے اُن پر پڑے اور پھر کھیت پر پڑے،  تو یہ نظر ان شاء اللہ ضرر رَساں نہ ہو گی، کیونکہ مروی ہے کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: ہم دیہاتی اور کسان لوگ ہیں، ہمیں اپنے کھیت کی بہاروں کو نظر لگنے کا خوف رہتا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُس عورت کو حکم ارشاد فرمایا کہ وہ کھیت میں ” کھوپڑیاں“ یا ” ہل کا پھال“ نصب کرے۔(فتاویٰ قاضی خان، جلد03، صفحہ 330، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1252ھ/1836ء) نے”الفتاویٰ الخانیہ“ کے اِسی جزئیہ کو برقرار رکھا ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 21،کتاب الحظر والاباحۃ،  صفحہ 418 ، مطبوعہ   دمشق)

   اِسی طرح بچوں کو بھی نظرِ بد سے حفاظت کے لیے ٹھوڑی پر ٹیکہ یعنی سرمے کا نشان لگایا جاتا ہے، وہ بھی اَثرِ عثمانی سے ثابت ہے، چنانچہ نور الدین علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1014ھ/1605ء) نے لکھا:”روي أن عثمان رضي اللہ عنه رأى صبيا مليحا فقال: دسموا نونته كيلا تصيبه العين، و معنى دسموا: سودوا، والنونة النقرة التي تكون في ذقن الصبي الصغير ‘‘ ترجمہ:حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے کسی خوبصورت بچے کو دیکھا، تو اُس کے اہلِ خانہ سے فرمایا: اس کی ٹھوڑی پر  سیاہ نقطہ لگادو ، تاکہ  اِسے کسی کی بُری نظر نہ لگے۔”دَسِّمُوْا  کا معنی ہے ”سیاہ کر دو“اور ”اَلنُّوْنَۃ“ سے مراد چھوٹا سا نشان ہے،  جو چھوٹے بچے کی ٹھوڑی پر ہوتا ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد08،کتاب الطب والرقی،  صفحہ360، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،لبنان)

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1367ھ/1947ء) نے لکھا:’’بعض کاشت کار اپنے کھیتوں میں کپڑا لپیٹ کر کسی لکڑی پر لگادیتے ہیں، اِس سے مقصود نظرِ بد سے کھیتوں کو بچانا ہوتا ہے،  کیونکہ دیکھنے والے کی نظر پہلے اُس پر پڑے گی، اس کے بعد زراعت پر پڑے گی اور اُس صورت میں زراعت کو نظر نہیں لگے گی، ایسا کرنا،  ناجائز نہیں،  کیونکہ نظر کا لگنا صحیح ہے، احادیث سے ثابت ہے، اس کا انکار نہیں کیاجاسکتا۔(بھار شریعت، جلد03، حصہ16، صفحہ420، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم