Pant Shirt Pehnne Ka Kya Hukum Hai ?

پینٹ شرٹ پہننے کا کیا حکم ہے ؟

مجیب: مفتی ابوالحسن محمد ھاشم خان عطاری

فتوی نمبر:17

تاریخ اجراء: 06رجب المرجب1439ھ/24مارچ2018ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ پینٹ شرٹ پہنناکیساہے؟سنا ہے اعلی حضرت علیہ الرحمۃ  نے ناجائز لکھا ہے ، اب کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگرپینٹ چست اورتنگ ہوجس سے اُن اعضاکی ہیئت ظاہرہوتی ہو ، جن کے چھپانے کاحکم ہے ، تولوگوں کے سامنے ایسی پینٹ پہنناممنوع ومکروہ  ہے ۔

   اوراگرپینٹ اتنی موٹی ،ڈھیلی اورکھلی ہوکہ اعضائے سترکی ہیئت معلوم نہ  ہوتی ہو ، تو ایسی پینٹ پہننا ممنوع نہیں ، البتہ علمائے کرام (مثلا اعلی حضرت)نے پہلےپینٹ پہننے کی ممانعت اس لیے فرمائی تھی کہ یہ پہننا کفار کے ساتھ خاص اوران کاشعارتھا ، لیکن فی زمانہ پینٹ پہننا چونکہ کفارکاشعار(یعنی اُن کے ساتھ خاص)نہ رہابلکہ مسلمانوں میں بھی اس کارواج ہوگیاہے ، لہذاممانعت کی علت باقی نہ رہی،اس کی نظیرترکی ٹوپی پہننے والامسئلہ ہے کہ یہ  پہلے نیچیریوں کا شعار تھی ، اس لئے علمائے کرام نے یہ ٹوپی  پہننے سے ممانعت فرمائی ، لیکن امام اہلسنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃکے دورمیں مسلمانوں نے بھی اس کوپہننا شروع کردیااور نیچریوں کاشعارنہ رہا ، توآپ علیہ الرحمۃ نے اس کے جوازکاحکم صادرفرمایا ، البتہ اب بھی پینٹ شرٹ پہنناکراہت(تنزیہی)سے خالی نہیں کہ یہ نیک لوگوں کا طور طریقہ نہیں بلکہ فاسقوں کا طریقہ ہے کہ اکثرفاسق لوگ ہی اسے پہنتے ہیں۔

   بہارِشریعت میں ہے:”دبیز کپڑا، جس سے بدن کا رنگ نہ چمکتا ہو، مگربدن سے بالکل ایسا چپکا ہوا ہے کہ دیکھنے سے عضو کی ہيات معلوم ہوتی ہے، ایسے کپڑے سے نماز ہو جائے گی، مگر اس عضو کی طرف دوسروں کو نگاہ کرنا ، جائز نہیں۔ (ردالمحتار) اور ایسا کپڑا لوگوں کے سامنے پہننا بھی منع ہے اور عورتوں کے ليے بدرجۂ اَولیٰ ممانعت۔ بعض عورتیں جو بہت چست پاجامے پہنتی ہیں، اس مسئلہ سے سبق لیں۔“(بھارِشریعت،ج1،حصہ3، ص480،مکتبۃالمدینہ، کراچی)

   موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:” لكنه يصف حجمها حتى يري شكل العضو فإنه مكروه “ترجمہ :( ایسا کپڑاجوسترعورت کاکام دے)لیکن عضوکے حجم کوبیان کرے یعنی عضوکی ہیئت معلوم ہوتی ہوتووہ کپڑاپہننامکروہ ہے ۔(الموسوعہ الفقھیہ الکویتیہ،لبس مایشف أویصف،ج6،ص136،دارالسلاسل،کویت)

   فتاوی رضویہ میں ہے:” کلاہ تر کی ابتدائے اودرنیچریاں شد آناں رابہرہ از اسلام نیست اگر ہم چناں می مانددریں ممالک حکم جوازش نبودی کہ ایں جا ترکان نیند بید یناں باوعاوی اند مگر حالا مشاہدہ است کہ در بسیارے از مسلمانان نیزایں تپ سرخ سرایت کردہ پس شعار نیچریت نماند اہل علم وتقوٰی را از واحتراز باید کہ تاحال وضع علماء وصلحاء شدہ است ہمچناں ۔ (ترجمہ: )ترکی ٹوپی کہ اس کی ابتداء نیچریوں سے ہوئی اور ان کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔ اگر یہی حالت رہتی تو ان ممالک میں اس کا جواز نہ ہوتا کیونکہ یہاں کوئی ترکی نہیں۔ صرف بے دین اس کے استعمال کی عادت رکھتے ہیں۔ لیکن اب دیکھنے میں آیا ہے (اوریہ مشاہدہ ہواہے) کہ بہت سے مسلمانوں میں بھی یہ سرخ بخار سرایت کر گیا ہے۔ لہذا اب نیچریت کا شعار نہیں رہا ، پس اہل علم اور اصحاب تقوٰی کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے یہاں تک کہ علماء اور صلحاء کا معمول ہوجائے۔ ‘‘(فتاوی رضویہ،ج22،ص192-93،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   فتاوی فقیہ ملت میں ہے :’’اعلیٰ حضرت مجدداعظم علیہ الرحمۃکے دورمیں پینٹ انگریزوں کا خاص لباس اور شعار تھا جو کوئی کسی پینٹ پہنے ہوئے کودیکھتاتوکہہ دیتاکہ یہ انگریزہے اس لئے آپ نے فتوی دیاکہ پتلون،پینٹ پہننامکروہ ہے اورمکروہ کپڑے میں نمازبھی مکروہ لیکن پینٹ کااستعمال اب بالکل عام ہوچکاہے ۔ ہندوومسلم ہرکوئی اس کواستعمال کرتاہے ۔کسی قوم کے ساتھ خاص نہ رہا۔اس لئے اگرپینٹ ایسا ڈھیلا ہوکہ نمازاداکرنے میں دشواری نہ ہوتواسے پہن کرنمازجائزہے۔البتہ ائمۂ مساجدکے شایان شان نہیں کہ وہ نیابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب پرہیں۔ لہذاوہ پینٹ نہ پہنیں۔“   (فتاوی فقیہ ملت،ج1،ص179،شبیربرادرز،لاھور)

   "فتاوی بریلی شریف"میں پینٹ شرٹ پہننے کے حوالے سے مذکورہے:”اعلی حضرت کا یہ حکم (انگریزی لباس پہننا حرام ہے )اس وقت کا ہے جب انگریزی وضع قطع کا لباس انگریزوں کا شعار قومی تھا انہیں تک محدود اور انہیں کے ساتھ خاص تھا اور جو وضع کسی قوم  کے ساتھ خاص ہو یا اس کا شعار قومی ہو اسے مسلمانوں کو اپنانا ناجائز وحرام ہے ….اب جبکہ انگریزی لباس مثلاپینٹ شرٹ وغیرہ کا پہنناانگریزوں کے ساتھ خاص نہ رہا بلکہ دیگر قوموں کے ساتھ مسلمانوں میں بھی عام ہوگیا تو اب یہ کسی ایک قوم کا وضع مخصوصہ اور شعار قومی نہ رہا اور نہ ہی اب یہ انگریزوں کا شعار قومی کہلائے گا لہٰذا اب وہ حکم سابق نہ رہا البتہ اسے پہننا اب بھی کراہت سے خالی نہیں کہ یہ وضع صلحاء نہیں بہر حال وضع فساق ہے کہ لباس مذکور ابھی اتنا عام نہیں ہوا کہ صلحاء علما اور متقین بھی استعمال کرتے ہوں بلکہ اکثر فساق ہی استعمال کرتے ہیں ان میں بھی کچھ ایسے ہوتے ہیں جو بدرجہء مجبوری اسے استعمال کرتے ہیں بلکہ بعض پہننے والے خود بھی اسے کوئی اچھا لباس نہیں تصور کرتے اور لوگوں کاا سے معیوب سمجھنا ہی اس کی کراہت کو کافی لہٰذا ایسی صورت میں مطلقاً مکروہ تنزیہی کا حکم ہے۔“(فتاوی بریلی شریف،ص207,208،شبیربرادرز،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم