Regmahi Ghiza Ya Dawa Ke Liye Khane Ka Huukum

ریگ ماہی بطورِ غذا یا بطورِ دوا کھانے کا حکم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor:12564

تاریخ اجراء: یکم جمادی الاولیٰ 1444 ھ/26 نومبر 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ریگ ماہی (گرگٹ کی ایک قسم)بطورِ غذاکھانے یا جس دوائی میں اس کے اجزاء شامل ہوں ،اس دوائی کو کھانے کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ریگ ماہی کا شمار حشرات الارض میں ہوتا ہے  اور تمام حشرات الارض کا بطورِ غذا کھانا حرام ہے کہ یہ خبائث میں سے ہیں، اسی طرح جس دوا میں ریگ ماہی کے اجزاء ملائےگئے ہوں ، اس دوائی کا کھانا بھی ناجائز و حرام ہے کہ جب حرام چیز کے اجزاء کسی حلال  چیز میں اس طرح ملا دیئے جائیں کہ اب ان میں تمییز ممکن نہ رہے تو یہ اجزاءحلال چیز کو بھی حرام کردیں گےاورحرام چیز بطورِ دوا  کھانا،  ناجائز و حرام ہے۔

   ریگ ماہی حشرات الارض سے ہے۔اس کے متعلق امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”لفظِ ماہی غیرِ جنسِ سمک پر بھی بولا جاتا ہے ، جیسے ماہی سقنقور حالانکہ وہ  ناکے کا بچہ ہے کہ سواحلِ نیل پر خشکی میں پیدا ہوتا ہے اور ریگ ماہی کہ قطعاً حشرات الارض(فتاوی رضویہ، جلد20،صفحہ 339، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   حشرات الارض کا کھانا حرام ہےکہ یہ خبائث میں سے ہیں۔اس کے متعلق علامہ عبد الغنی دمشقی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”لا یحل اکل الحشرات کلھا ای المائی والبری کالضفدع والسلحفاۃ والسرطان والفأروالوزغ والحیات لانھا من الخبائث“تمام حشرات کاکھاناحرام ہے،خواہ وہ حشرات تری کے ہوں یاخشکی کے۔جیسے مینڈک ، کچھوا،کیکڑا،چوہا،چھپکلی اور سانپ، کیونکہ یہ خبیث چیزوں میں سے ہیں۔ (اللباب ملتقطاً، جلد4،صفحہ 95،مطبوعہ:کراچی)

   شمس الائمہ امام ابو بکرمحمدسرخسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”المستخبث حرام بالنص لقولہ تعالی : ﴿وَیُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الْخَبٰٓئِثَ﴾ ولھذا حرم تناول الحشرات، فانھا مستخبثۃ طبعا وانما ابیح لنا اکل الطیبات“یعنی خبیث اشیاءنص کی وجہ سےحرام ہیں ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:(اورنبی لوگوں پرخبیث چیزوں کوحرام کرتےہیں)اوراسی وجہ سے حشرات کاکھاناحرام ہے ،کیونکہ یہ طبعاًخبیث ہیں اور ہمارے لیے فقط پاکیزہ چیزیں کھاناحلال کیاگیاہے۔ (المبسوط، جلد11،صفحہ240،مطبوعہ :کوئٹہ)

   حرام اشیاء کوبطورِدواکھانا، ناجائزہے۔چنانچہ سننِ ابی داؤد میں ہے کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ان اللہ انزل الداء والدواء وجعل لکل داء دواء فتداووا ولا تداووا بحرام“یعنی بے شک اللہ پاک نے بیماری اور دوا کو نازل فرمایا اور ہر بیماری کے لیے دوا رکھی ہے، لہٰذا ان دواؤں سے علاج کرواور حرام چیزوں سے علاج نہ کرو۔ (سنن ابی داؤد ،جلد2،صفحہ174،مطبوعہ: لاھور)

   درمختار و ردالمحتار میں ہے:واللفظ فی الھلالین للدر:”(لایجوز التداوی بالمحرم) ای المحرم استعمالہ طاھرا کان او نجسا(فی ظاھر المذھب)یعنی ظاہرِ مذہب  میں اس چیز سے علاج کرنا،  جائز نہیں جس کا استعمال حرام ہو خواہ وہ چیز پاک ہو یا نجس۔(درمختارمع ردالمحتار ،جلد4،صفحہ390،مطبوعہ: کوئٹہ)

   حرام شے کو حلال چیز میں ملا دیا کہ  تمییز ممکن نہ رہی توبھی اس کا کھانا حرام ہوگا۔چنانچہ امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا :”خراطین یا مکروہِ تحریمی یا حرام شے کا جلا کر کھانا یا جس شے میں جلائی ہے مثلاً گھی وغیرہ اس کا کھانا کیسا؟“

   اس کا جواب دیتے ہوئے امامِ اہلسنت  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”حرام شے  جلنے کے بعد بھی حرام ہی رہے گی اور دوسری شے میں اگر ایسی مخلوط ہوگی کہ تمیز ناممکن ہے، تو اُسے بھی حرام کردے گی۔اذا اجتمع الحلال والحرام غلب الحرام۔حلال اور حرام مجتمع ہوں تو حرام کو غلبہ ہوتاہے۔ت (فتاوی رضویہ، جلد20،صفحہ 262۔263،رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   ہرمسلمان کا پختہ اعتقاد ہے کہ ہر بیماری سے شفا اللہ پاک کی طرف سے ہی ہوتی ہے، تو جب شفا دینے والا اللہ ہے ،اگر اسے منظور ہوا توشفا حلال دواؤں سے بھی حاصل ہوسکتی ہے ، جبکہ حرام دوائیں فقط گناہوں میں اضافے کا باعث ہیں،لہٰذاعلاج کے لئے حلال دواؤں ہی کا استعمال کیا جائے اور خود کو حرام اشیاء سے بنی دواؤں سے دور رکھا جائے۔

   امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:”جان حلال دواؤں سے بھی بچ سکتی ہے ،اگر اسے بچانا منظور ہے ورنہ حرام دوائیں سوائے گناہ کچھ اضافہ نہ کریں گی“(فتاوی رضویہ، جلد24،صفحہ 208،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم