Sab Musalmano Ke Liye Be Hisab Magfirat Ki Dua Karna

سب مسلمانوں کے لیے بے حساب مغفرت کی دعا مانگنا کیسا؟

مجیب: مفتی ابو محمد  علی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Nor-m8366

تاریخ اجراء: 10رمضان المبارک1435ھ09جولائی2014ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا یہ دعا مانگنا جائز ہے؟دعاء یہ ہے:یا اللہ سب مسلمانوں کی /یا اللہ پوری امت کی بلا حساب مغفرت فرما۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بالعموم تمام مسلمانوں کی مغفرت کی دعا کرنا، جائز ہے، لیکن بلاحساب تمام مسلمانوں کی مغفرت تامہ کی دعا کرنا  جائز نہیں ۔

   سوال میں مذکوردعا کے الفاظ میں کئی پہلو ہیں:بعض ناجائز ہیں جیسےاگرمذکورہ دعاکے الفاظ میں دعا کرنے والے کی مغفرت کے لفظ سے مراد مغفرت ِتامہ ہو یعنی اے اللہ ہر مسلمان کے ہر گناہ کی پوری پوری بلا حساب مغفرت فرما کہ کسی مسلمان کے کسی گناہ پر بالکل پوچھ گچھ نہ فرما تویہ جائز نہیں،کیونکہ دعاکے یہ الفاظ قرآن پاک کی کئی آیات اوراحادیث کو جھٹلانے کی طرف لے جائیں گے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے بعض مسلمانوں کو سزا دینے کا فیصلہ مقرر کر رکھا ہے سو کچھ مسلمان اپنی بد اعمالی کی سزا پا کر جنت میں جائیں گے لہذا اس معنی کے اعتبار سے یہ الفاظ جائز نہیں ہوں گے۔

   جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ''فضائلِ دعا ''میں لکھتے ہیں: ”دوسرے یہ کہ مغفرت تامہ کاملہ مراد لی جائے یعنی ہرمسلمان کے ہر گناہ کی پوری مغفرت کر کہ کسی مسلمان کے کسی گناہ پر اصلاً مواخذہ نہ کیا جائے،یہ بیشک تکذیب نصوص کی طرف جائے گا اور اسی کو امام قرافی ناجائز فرماتے ہیں ۔ اور بیشک یہی من حیث الدلیل راجح نظر آتا ہے اور اس طرح کی دعا کسی آیت یا حدیث سے ثابت نہیں ۔ “ (فضائل دعا، ص 211، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   اور اگر دعا کے مذکورہ بالا الفاظ سے دعا کرنےوالے کی مراد مغفرت سےیہ ہوکہ تمام مسلمانوں کے بعض گناہوں کی بلا حساب مغفرت فرما،یا پھر یہ مراد ہو کہ کسی بھی مسلمان کے کسی بھی گناہ پر اس کو پوری پوری سزا نہ دے تو اس دعا میں کوئی حرج نہیں ۔

   جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ''فضائلِ دعا ''ہی میں فرماتے ہیں: ”اب رہی صورتِ ثالثہ (تیسری صورت) یعنی داعی( دعا کرنے والا)دونوں تعمیمیں کرے۔مثلاًکہے الٰہی!سب مسلمانوں کے سب گناہ بخش دے۔اقول:اس کے پھر دو معنی محتمل۔ایک یہ کہ مغفرت بمعنی تجاوز فی الجملہ کے لیں۔تو حاصل یہ ہوگا کہ الٰہی!کسی مسلمان کو اُس کے کسی گناہ کی پوری سزانہ دے۔اس کے جواز (یعنی جائز ہونے)میں بھی کچھ کلام نہیں،کہ مفادِ نصوص مطلقاًتعذیبِ بعض عصاۃ (یعنی نصوص کا مفادبغیر کسی قید کے بعض نافرمان مسلمانوں کو عذاب دئیے جانے کے بارےمیں )ہے۔نہ کہ استیفائے جزائے بعض ذنوب(بعض گناہوں کی پوری سزا) ۔بلکہ کریم کبھی استقصاء(یعنی پوری سزا) نہیں فرماتا۔الا تری الی قولہ تعالیٰ   :﴿ عَرَّفَ بَعْضَهٗ وَ اَعْرَضَ عَنْۢ بَعْضٍۚ۔جب اکرم الخلق مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی پورا مواخذہ نہیں فرمایا تو ان کا مولیٰ عزوجل تو اکرم الاکرمین ہے۔ “ (فضائل دعا، ص 211-210، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم