Sahabi Ke Naam Ke Sath رحمۃ اللہ علیہ Aur Wali Ke Naam Ke Sath رضی اللہ عنہ Kehna Kaisa?

صحابہ کے ساتھ ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ اوراولیاء کےساتھ ’’رضی اللہ عنہ‘‘   لکھنا یا پڑھنا کیسا ؟ 

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-1180

تاریخ اجراء: 13صفرالمظفر1443 ھ/21ستمبر2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا  صحابہ کرام کےنام کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ اوراولیائےکرام کےنام کےساتھ رضی اللہ عنہ  پڑھنا درست ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صحابہ کرام کے نام کےساتھ”رحمۃ اللہ علیہ“اور اولیاء اللہ  کے نام کےساتھ ”رضی اللہ عنہ “پڑھنا جائز ہے، لیکن مستحب یہ ہےکہ صحابہ کرام کے نام  کے ساتھ ترضّی کے  صیغے مثلا:”رضی  اللہ عنہ،رضوان اللہ علیہ“اوراولیاء اللہ اور نیک بندوں  کی وفات کے بعد ان کے نام کے ساتھ ترحّم کے صیغے مثلاً:”رحمۃ اللہ علیہ، علیہ الرحمۃ “وغیرہ پڑھے جائیں، البتہ اگر اولیاء کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھا جائے، تو یہ بھی جائز ہے ۔

   مجمع الانہر میں ہے :”يستحب الترضي للصحابة والترحم للتابعين ومن بعدهم من العلماء والعباد وسائر الأخيار ، وكذا يجوز الترحم على الصحابة والترضي للتابعين ومن بعدهم من العلماء والعباد “یعنی  مستحب یہ ہےکہ صحابہ کےلیے ترضی (رضی ا للہ عنہ ) جبکہ تابعین اور ان کےبعد والے علما ءو  اولیاء اور تمام نیک بندوں کےلیے ترحم(رحمۃ اللہ علیہ )  جیسے دعائیہ الفاظ  استعما ل کیے جائیں اسی طرح  یہ بھی جائز ہے کہ  صحابہ کےلیے ترحم اور اولیاء کےلیے ترضّی کے  جملے استعمال کیےجائیں ۔ ( مجمع الانھر،جلد04،صفحہ491،مطبوعہ کوئٹہ)

     تنویر الابصارا ور اس کی شرح درمختارمیں ہے:”ويستحب الترضي للصحابة۔۔۔۔والترحم للتابعين ومن بعدهم من العلماء والعباد وسائر الأخيار وكذا يجوز عكسه ،وھوالترحم للصحابة والترضي للتابعين ومن بعدهم “یعنی  صحابہ کرام کے لیے رضی اللہ عنہ جبکہ  تابعین  اور ان کے بعد والے علماء ،اولیاء اور تمام نیک لوگوں کےلیے رحمۃ اللہ علیہ پڑھنا مستحب ہے  اوراس   کا عکس بھی جائز ہے، یعنی صحابہ کےلیے  رحمۃ اللہ علیہ کہنا  اور اولیاء کےلیے  رضی اللہ عنہ استعمال  کرنا بھی جائز ہے۔(در مختا ر،جلد10،صفحہ 520،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فتاویٰ رضویہ میں ایک سوال کا جواب دیتےہوئے ارشاد فرماتےہیں :”رضی اللہ عنھم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تو کہاہی جائےگا ،ائمہ  واولیاء وعلمائے دین کو بھی کہہ سکتےہیں ،کتاب مستطاب بھجۃ الاسرار وجملہ تصانیف  امام عارف باللہ سیدی عبد الوہاب شعرانی وغیرہ اکابر میں یہ شائع وذائع ہے ۔تنویر الابصار میں  ہے:يستحب الترضي للصحابةوالترحم للتابعين ومن بعدهم من العلماء والعباد وسائر الأخيار وكذا يجوز عكسه  علی الراجح‘‘یعنی (صحابہ کرام کے اسمائے گرامی  کےساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنا یا لکھنا مستحب ہے تابعین اور بعد والے علما ،اولیااور نیک بندوں کے لیے رحمۃ اللہ علیہ کہنا اور لکھنا مستحب ہے  اور اس کا عکس بھی راجح قول کے مطابق جائز ہے ۔“ (فتاویٰ رضویہ،جلد23،صفحہ390،   رضا فاونڈیشن،لاھور)

   مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فتاوی  امجدیہ میں فرماتےہیں:”بزرگان دین  کے ساتھ ترضی یعنی رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کہنااور لکھنا جائزہے۔“(فتاویٰ امجدیہ،حصہ 04،صفحہ 345، مکتبہ رضویہ ،کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم