Shadi Ke Moqe Par Hone Wali Ek Rasam Ka Sharai Hukum

شادی کے موقع پر ہونے والی ایک رسم کا شرعی حکم

مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1099

تاریخ اجراء: 04ربیع ا لاول1445 ھ/21ستمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہمارے یہاں شادی کے موقع پر ایک رسم کی جاتی ہے ، جس میں بے پردگی و بے حیائی واضح طور پر ہورہی ہوتی ہے ، اس رسم کے مطابق دولہا والے دلہن کے گھر آتے ہیں اور دولہا اپنی ہونے والی دلہن کی بہن کے گلے میں ہار ڈالتا ہے اور اسے پرفیوم لگاتا ہے ، پھر دلہن والے دولہا کے گھر جاتے ہیں ، وہاں دلہن کی بہن دولہا کو ہار پہناتی ہے اور اسے اپنے ہاتھوں سے پان کھلاتی ہے ، اسے لکڑی سے مارتی ہے  اور لکڑی سے کبھی تیز چوٹ لگ جاتی ہے  حتی کے خون بھی نکل آتا ہے ، ایسی بے ہودہ قسم کی رسموں کو کرنے سے منع کیا جائے  پھر بھی فیملی والے نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ خوشی کے موقع پر پرابلم نہ بناؤ ، اگر کوئی دولہا یہ رسم نہ کرنا چاہے ،تو اس کے ساتھ زبردستی کرتے ہیں اور مجبور کردیتے ہیں ،ایسی صورت حال میں جس کو یہ رسم کرنی پڑے ، تو کیا وہ گناہ گار ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   معاذ اللہ، پناہِ خدا۔سوال میں مذکور  کام اللہ و رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے احکامات کی خلاف ورزی، سراسر ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔کوئی خوشی یا غمی اللہ و رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی نافرمانی کو جائز نہیں کر دیتی  اور نہ بروزِ قیامت بارگاہِ خداوندی میں یہ جواب چلے گا  کہ خوشی کا  موقع تھا۔

   نیز ناجائز رسم  و رواج میں رشتہ داروں کی بات ماننے میں  یہ عذر بھی کسی کام  کا نہیں  کہ وہ مجبور کر دیتے ہیں یا جبراً کرواتے ہیں۔کوئی بھی گن پوائنٹ  پرایسا  نہیں کرواتا اور صرف زور زبردستی کو شرعی جبر نہیں کہا جاتا۔جو بات شریعت کے خلاف ہو،اس میں رشتہ داروں کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی،وہ ناراض ہوتے ہوں، تو ان کا قصور ہے، ان کی وجہ سے اپنی آخرت ہر گز خراب نہیں کی جائے گی۔حدیث پاک کے مطابق جو کام اللہ جل جلالہ کی نافرمانی پر مشتمل ہو اس میں کسی مخلوق کی اطاعت کرنا، جائز نہیں۔ایک اور حدیث پاک کے مطابق جو لوگوں کو راضی کرکے اللہ پاک کی ناراضی چاہے گا تو اللہ پاک بھی اس سے ناراض ہوگا اور مخلوق کو  بھی اس سے ناراض کردے گا،لہٰذا کسی بھی حال میں احکامِ شریعت کی خلاف ورزی نہ کی جائے، اپنے اہلِ خانہ کو احسن انداز میں سمجھایا جائے، اگر اس ناجائز رسم کے ارتکاب سے باز آجائیں تو اس میں ان کے لئے عافیت ہے ۔

   حدیث پاک میں ہے:” لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق “یعنی اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائزنہیں۔(مسند امام احمد بن حنبل    عن علی،جلد1،صفحہ129، دارالکتب الاسلامی، بیروت )(المعجم الکبیر، جلد18، صفحہ 170،الحدیث381، بیروت)

   سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روی ہے،مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”من شر الناس منزلۃ عند اللہ یوم القیامۃ عبد اذھب آخرتہ بدنیا غیرہ“یعنی قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے برا ٹھکانا اس شخص کا ہو گا جس نے دوسرے کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت برباد کر لی۔(سنن ابن ماجہ ، الحدیث:3966، صفحہ 612،مطبوعہ:ریاض)

   امام بیہقی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من اراد سخط اللہ ورضا الناس عاد محامدہ من الناس ذامایعنی جس نے اللہ پاک کی ناراضی اور لوگوں کی رضامندی چاہی ،تو اُس کی تعریف کرنے والا اس کی مذمَّت کرنے لگے گا۔(الزھد الکبیر للبیھقی، الحدیث: 887،صفحہ331،مطبوعہ:دارالجنان ، بیروت)

   الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان میں حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من ارضی اللہ بسخط الناس کفاہ اللہ ومن اسخط اللہ برضی الناس وکلہ اللہ الی الناس“یعنی جس نے لوگوں کو ناراض کرکے اللہ پاک کوراضی کیااللہ پاک اُسے کافی ہے اور جس نے لوگوں کو راضی کرکے اللہ پاک کو ناراض کیا اللہ پاک اُسے لوگوں کے ہی سپرد فرما دے گا۔(الاحسان بتریتب صحیح ابن حبان، الحدیث: 277،جلد1، صفحہ511،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)

   المعجم الکبیر میں ہے،رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم فرماتے ہیں:”من تحبب الی الناس بما یحبوہ وبارز اللہ لقی اللہ تعالیٰ وھو علیہ غضبان“یعنی جس نے لوگوں کے لئے وہ چیز پسند کی جس سے وہ محبت کرتے ہیں اور اللہ عزوجل ( کی نافرمانی کرکے اُس ) سے مقابلہ کیا تو وہ بروزِ قیامت اللہ عزوجل سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ پاک اس سے ناراض ہو گا۔(المعجم الکبیر للطبرانی، جلد17، صفحہ 186،حدیث:499، مطبوعہ:قاھرہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم