Sood Ke Paise Masjid Mein Dene Ka Hukum

سود کے پیسے مسجد میں دینے کا حکم

مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2574

تاریخ اجراء: 08رمضان المبارک1445 ھ/19مارچ2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   سود کے پیسے مسجد میں دینا جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سود لینا اور دینا ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اور اس سے حاصل ہونے والا مال، مالِ حرام ہوتا ہے اور سودی معاملہ ختم کر کے اس سے توبہ کرنا ضروری ہے اور توبہ کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس حرام مال سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اور اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں کہ یا تو ڈائریکٹ ہی اس مال کو بغیر ثواب کی نیت کے کسی شرعی فقیر یعنی مستحق زکوۃ کو دے دیا جائےیا جس سے وہ مال لیا ہو، اسے واپس کر دیں اور اگر وہ زندہ نہ ہو تو اس کے ورثاء کو دے دیں اوریہی بہترہے ۔

    سود کی رقم کو مسجد یا مدرسہ کی تعمیر وغیرہ میں نہیں لگا سکتے۔ ہاں اگر شرعی فقیر اس رقم پر قبضہ کرنے کے بعد اپنی خوشی سے اسے مسجد یا مدرسہ میں لگانا چاہے، تو اس میں حرج نہیں۔

   سودی رقم کے متعلق حکم شرع کی وضاحت کرتے ہوئے امام اہلسنت علیہ الرحمۃ نے فرمایا:

   "یہی حکم سُود وغیرہ عقودِفاسدہ کاہے  فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں جس سے لیا بالخصوص انہیں واپس کرنا فرض نہیں بلکہ اسے اختیار ہے کہ اسے واپس دے خواہ ابتداء تصدق کردے۔۔۔۔ہاں جس سے لیا انہیں یا ان کے ورثہ کو دینا یہاں بھی اولٰی ہے کما نص علیہ فی الغنیۃ والخیریۃ والھندیۃ وغیرھا (جیسا کہ غنیہ، خیریہ اور ہندیہ وغیرہ میں اس کی صراحت کی گئی ہے۔) "(فتاوی رضویہ،ج23،ص541،542،رضافاونڈیشن،لاہور)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے ایک سوال میں سود کا پیسہ صدقات و خیرات بالخصوص تعمیر مسجد میں لگانے کے متعلق سوال ہوا تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا:” سود حرام قطعی ہے اور اس کی آمدنی حرام قطعی اور خبیث محض ہے ۔۔۔زر حرام والے کو یہ حکم ہوتا ہے کہ جس سے لیا اسے واپس دے وہ نہ رہا اس کے وارثوں  کو دے پتہ نہ چلے تو فقراء پر تصدق کرے یہ تصدق بطور تبرع واحسان و خیرات نہیں  بلکہ اس لئے کہ مال خبیث میں  اسے تصرف حرام ہے اور اس کا پتہ نہیں  جسے واپس دیا جاتا لہٰذا دفع خبث وتکمیل توبہ کے لئے فقراء کودینا ضرور ہوا اس غرض کے لئے جومال دفع کیا جائے وہ مساجد وغیرہ امور خیر میں  صرف کہ خبیث ہے اور یہ مواضع خبیث کا مصرف نہیں ، ہاں  فقیر اگر لے کر بعد قبول و قبضہ اپنی طرف سے مسجد میں  دے دے تو مضائقہ نہیں ۔(فتاوی رضویہ،ج 17،ص 352 ،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم