Student Plucking Karwana Jaiz Hai Ya Nahi ?

Student Plucking کروانا جائز ہے یا نہیں ؟

مجیب:مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1421

تاریخ اجراء: 23جمادی الثانی1445 ھ/06جنوری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   student plucking کروانا جائز ہے ؟ خواتین کا کہنا ہے کہ اس میں بھنووں کو باقاعدہ shapeنہیں دی جاتی بلکہ صرف اطراف سے تھوڑے تھوڑے بال صاف کیے جاتے ہیں جن سے بھنویں تھوڑی neat ہو جاتیں ہیں ۔کیا اس کی اجازت ہے شریعت میں ؟

   نیز حدیث مبارکہ میں آئی برو کو نوچنے اور نوچوانے والی پر لعنت آئی ہے۔ کیا یہ صورت ہو سکتی ہے کہ نوچے نہ جائیں چھوٹی قینچی کی مدد سے تھوڑے تھوڑے کاٹ لیے جائیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر ابرو کے کچھ بال بہت زیادہ بڑھ چکے ہوں کہ چہرہ بدنما دکھائے دے جیسے کبھی ایک دو بال زیادہ بڑھ جاتے ہیں کہ برے معلوم ہوتے ہیں توصرف ان بڑھے ہوئے بالوں کو اتنا چھوٹا کرسکتے ہیں کہ بھدا پن  یعنی بدنمائی دور ہو جائے لہٰذا اس صورت میں قینچی سے کاٹ کر اتنا چھوٹا کرلیں کہ برے معلوم نہ ہوں۔اس کے علاوہ صرف خوبصورتی کے لئے ایسا کرنا، ناجائز و گناہ ہے،لہٰذا student pluckingکی جو صورت سوال میں مذکور ہے وہ جائز نہیں بلکہ گناہ ہے۔

   مشکوۃ المصابیح میں بحوالہ بخاری و مسلم  حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں : ’’لعن اللہ الواشمات و المتوشمات و المتنمصات و المتفلجات للحسن المغیرات خلق ﷲ،متفق علیہ۔‘‘ اللہ تعالیٰ  لعنت کرے گودنے  والیوں پر  اور گودوانے  والیوں پر  اور بال اکھیڑنے  والیوں  پر اور حسن کے لئے (دانتوں میں ) کھڑکیاں  کرانے والیوں  پر جو اللہ کی خلقت   کو بدلنے والیاں ہیں ۔( مشکوۃ المصابیح  مع مرقاۃ المفاتیح ،جلد8، صفحہ 281، کوئٹہ)

   علامہ بدرالدین عینی حنفی  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مذکورہ حدیث کی شرح میں   فرماتےہیں :’’قولہ ‘‘ للحسن  یتعلق بالمتفلجات ای لاجل الحسن قید بہ لان الحرام منہ ھو المفعول لطلب الحسن ،اما اذا احتیج الیہ لعلاج او عیب فی السن ونحوہ فلاباس بہ‘‘ان کا قول للحسن  متفلجات کےمتعلق ہےیعنی حسن کی وجہ سے،حسن کی قیداس لیےلگائی کیونکہ  اس میں سےصرف وہ حرام ہےجوحسن کےحصول کےلئےکیاجائے،بہرحال اگر علاج یا  دانت میں عیب  وغیرہ کی وجہ سےاسکی حاجت ہو تو حرج نہیں  ۔(عمدۃ القاری شرح صحیح  البخاری، جلد13، صفحہ 389،مطبوعہ  دارالفکر،بیروت)

   علامہ علی قاری رحمۃ  اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتےہیں:’’قال النووی:فیہ إشارۃ  إلی أن  الحرام  ھو المفعول  لطلب الحسن،اما لو إحتاجت الیہ لعلاج أو عیب  فی السن  و نحوہ فلا بأس  بہ‘‘امام نووی رحمۃ  اللہ علیہ نے فرمایا :اس میں  اشارہ ہے کہ  یہ عمل تب حرام ہے جب   خوبصورتی حاصل کرنے کے لئے  کیا جائے،بہر حال اگر علاج یا  دانت میں عیب  وغیرہ کی وجہ سے اس کی حاجت ہو تو حرج نہیں  ۔(مرقاۃ المفاتیح ،جلد8،صفحہ 281، کوئٹہ)

   طبرانی معجم کبیر میں بسند ِحسن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے راوی،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتےہیں:’’من مثلہ بالشعر فلیس لہ عند ﷲ خلاق‘‘جوبالوں کےساتھ مثلہ کرے اللہ عزوجل کے یہاں اس کا کچھ حصہ نہیں۔(المجعم الکبیر  للطبرانی ،جلد11،صفحہ41،حدیث 10977،المکتبۃ الفیصلیۃ،بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:’’یہ حدیث خاص مسئلہ مثلہ مُو(بالوں کےمثلہ کے مسئلہ) میں ہے،بالوں کا مُثلہ یہی جو کلمات ِائمہ سےمذکور ہوا کہ عورت سرکے بال یا مرد داڑھی یا مرد خواہ عورت بھنویں،یہ سب صورتیں مثلہ مُومیں داخل ہیں اور سب حرام۔‘‘(فتاویٰ رضویہ،جلد22،صفحہ664،رضافاؤنڈیشن لاہور)

   بہارشریعت میں ہے : ”بھوؤں کے بال اگر بڑے ہوگئے تو ان کو تراش سکتے ہیں۔“(بہار شریعت ،جلد 3، صفحہ 585، مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم