Surgery Mein Cauterization Karna Kaisa ?

سرجری میں   Cauterizationکرنانیز داغ   کر علاج کرنے والی حدیث پاک کی وضاحت

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-11857

تاریخ اجراء:        29 ربیع الاول1443 ھ/05 نومبر   2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ میں ایم بی بی ایس کے فائنل ایئر میں ہوں ، ہم سرجری کے دوران مریض کی شریانوں کو بجلی کے آلے سے جلا کر خون بہنے سے روکتے ہیں ، میڈیکل میں اسے cauterization کہا جاتا ہے ۔ کچھ دن پہلے کسی نے مجھے ایک حدیث بھیجی جس میں جلا کر علاج کرنے کی ممانعت کا ذکر ہے ۔ میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسی حدیث موجود ہے؟اگر  ایسی حدیث موجود ہے، تو ہمارا طریقہ علاج شرعی رو سے جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شریان کو جلاکرخون بہنے سے روکنے کا عمل جائز ہے، گناہ نہیں،البتہ اگر یہی طریقہ متعین ہو، تو بلا کراہت اسے اختیار کرنا ، جائز ہوگا اور دوسرا بہتر طریقہ بھی موجود ہو، تو اس عمل کو اختیار کرنا مکروہ تنزیہی و ناپسندیدہ ہوگا، بشرطیکہ اس طریقہ علاج کو "شفا کا سبب" تسلیم کریں۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ زخم کو آگ سے جلا کر علاج کرنے کا عمل داغنا ، داغ  کر علاج کرنا کہلاتاہے ۔ بعض احادیث میں داغنے سے منع کیا گیا ہے ،جبکہ بعض احادیث سے اس کا جواز ثابت ہے۔دونوں قسم کی احادیث میں درج ذیل چند طریقے سے تطبیق بیان کی گئی ہے :

1.            اہل عرب داغنے کو بہت مفید خیال کرتے تھے ،حتی کہ اسے بذات خود مستقل طور پر شفا دینے والا مانتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عقیدے کی تردید کے لیے داغنے سے منع فرمایا اور اللہ تعالی کی طرف سے شفا ملنے کی امید پر داغ  کر علاج کرنے کو جائز رکھا۔

2.            اگر مرض کا علاج کسی دوسرے طریقے سے ہو سکتا ہے، تو داغ  کر علاج کرنا منع ہے ،البتہ ماہر طبیب کے نزدیک صرف داغنا ہی علاج کے لیے متعین ہے، تو بلاکراہت اس طریقے کو اختیار کرنا ، جائز ہے ۔

3.            جہاں داغ  کر علاج کرنا خطرے کا باعث ہے ، وہاں داغنا منع ہے ، جہاں خطرہ نہیں  وہاں یہ طریقہ اختیار کرنا ، جائز ہے۔

4.            داغ کر علاج کرنے سے ممانعت تحریمی نہیں ،تنزیہی ہے اور اس پر دلیل یہ بھی ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ،حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اور حضرت اسعد بن زرارہ  رضی اللہ عنہ  کو اپنے دست اقدس سے داغا نیز متعدد صحابہ کرام علیہم الرضوان سے بھی داغ  کر علاج کرنے کا ثبوت ہے ۔لہذا داغنے سے مطلقا منع نہیں کیا جا  سکتا ، مذکورہ بالا وضاحت کے مطابق بوقت ضرورت داغ  کر علاج کیا جا سکتا ہے ۔

   داغنے کے جواز پر احادیث:

   حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’رمی أبی يوم الأحزاب على أكحله فكواه رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم‘‘ترجمہ:غزوہ احزاب کے دن میرے والد کی کلائی میں تیر لگا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا زخم داغ دیا ۔(صحیح المسلم ، کتاب الطب ، باب لکل داء دواء ، جلد4، صفحہ1730، دار احیاء التراث العربی)

   ابو داؤد شریف میں ہے :’’ أن النبی  صلى اللہ عليه وسلم  كوى سعد بن معاذ من رميته‘‘ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو تیر لگنے کے سبب داغا۔(سنن ابو داؤد ، کتاب الطب ، جلد6، صفحہ15، دار الرسالۃ العالمیۃ)

   ترمذی شریف میں ہے:’’أن النبی صلى اللہ عليه وسلم كوى أسعد بن زرارة من الشوكة‘‘ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسعد بن زرارہ  رضی اللہ عنہ کو کانٹا لگنے کے سبب داغا ۔(سنن ترمذی ، ابواب الطب ، جلد4، صفحہ390، مصر)

   داغنے سے ممانعت کی حدیث اور اس کی شرح:

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ الشفاء فی ثلاثة: فی شرطة محجم، أو شربة عسل، أو كية بنار، وأنا أنهى أمتی عن الكی"ترجمہ: شفا تین چیزوں میں ہے ،پچھنے لگوانا ، شہد پینا ، اور داغنا ۔ میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں۔(صحیح البخاری مع العمدۃ ، کتاب الطب، جلد14، صفحہ669،مطبوعہ  ملتان)

   عمدۃ القاری، فتح الباری ، ارشاد الساری ، منحۃ الباری ،التوضیح ،الکواکب الدراری ، اعلام الحدیث ، فیض القدیر ، شرح طیبی ، المسالک ، المفاتیح ،لمعات التنقیح ،مرقاۃ المفاتیح میں ہے، واللفظ للآخر:’’وأنا أنهی أمتی عن الكی ولعل النهی محمول على التنزيه فإنه مبالغة فی تعاطی الأسباب وهو لا ينافی التوكل والاعتماد بظاهره ۔۔۔وجاء حديث النهی عن الكی بانفراده على ما رواه الترمذی والحاكم عن عمران والطبرانی عن سعد الظفری بضم، نعم إذا كان الكی متعينا فی ذلك الداء خرج عن موضع الكراهة، وعليه يحمل ما وقع لبعض الصحابة كما سيأتی واللہ أعلم. ثم رأيت فی كلام بعض الشراح صريحا أن ذلك عند عدم القدرة على المداواة بدواء آخر، والنهی قبل بلوغ ضرورة داعية إليه أو فی موضع يعظم خطره أو الكی الفاحش وإليه الإشارة بقوله أو كية واحدة غير فاحشة وقيل النهی تنزيهی قال الخطابی: الكی داخل فی جملة العلاج والتداوی المأذون فيه، والنهی عن الكی يحتمل أن يكون من أجل أنهم كانوا يعظمون أمره ويرون أنه يحسم الداء ويبرئه وإذا لم يفعل هلك صاحبه ويقولون آخر الدواء الكی فنهاهم النبی  صلى اللہ عليه وسلم  عن ذلك على هذا الوجه وأباح استعماله على معنى طلب الشفاء والترجی للبرء بما يحدث اللہ من صنعه فيه فيكون الكی والدواء سببا لا علة‘‘  ترجمہ: میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں ، شاید یہ  ممانعت تنزیہی پر محمول ہے، کیونکہ یہ اسباب اختیار کرنے میں مبالغہ ہے ،جو  بظاہر توکل و اعتماد الہی کے منافی نہیں ۔۔ داغنے سے منع کرنے کی حدیث علیحدہ سے ترمذی و حاکم نے حضرت عمران رضی اللہ عنہ سے اور طبرانی نے حضرت سعد ظفری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ۔ ہاں اگر داغنا اس بیماری میں متعین ہو جائے ،تو یہ مقام کراہت سے خالی ہے اور اس کیفیت  تک پہنچنے سے پہلے منع ہے یا ایسی جگہ داغنا منع ہے، جہاں خطرہ زیادہ ہے یا بہت زیادہ داغنا منع ہے  ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول’’ایک بار داغنا جو بہت زیادہ نہ ہو ‘‘میں اسی طرف اشارہ ہے اور کہا گیا کہ یہ نہی تنزیہی ہے ۔ علامہ خطابی نے فرمایا داغنا بھی جائز علاج اور دوا کرنے میں شامل ہے ، اس سے ممانعت میں احتمال ہے کہ اہل عرب اس کو بہت مفید خیال کرتے تھے اور گمان کرتے تھے کہ یہ بذات خود بیماری ختم کر کے شفا دینے والا عمل ہے ، اگر یہ کام نہ کیا، تو مریض ہلاک ہو جائے گا اور کہا کرتے تھے ، داغنا آخری دوا ہے ۔ اسی بناپر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرمایا اور اللہ تعالی کی عطا سے  طلب شفا و امید کے طور پر استعمال کو مباح فرمایا ،تو داغنا اور دوا کرنا سبب ہے ، علت نہیں ۔(مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الطب ، الفصل الاول ، جلد7، صفحہ2862، بیروت)

   نزہۃ القاری میں ہے :’’اس حدیث میں جو فرمایا کہ میں داغنے کو پسند نہیں فرماتا ، یہ اس کی دلیل ہے کہ داغنے سے ممانعت تحریم کے لیے نہیں ، تنزیہہ کے لیے ہے ، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو اپنے دست مبارک سے داغا تھا۔(نزھۃ القاری  ، جلد5، صفحہ498، فرید بک اسٹال)

   مرأۃ المناجیح میں ہے :’’احادیث شریفہ میں داغ سے ممانعت بھی آئی ہے اور داغ لگانا بھی وارد ہے، اس لیے محدثین نے ان کی مطابقت کی بہت وجہیں بیان فرمائیں: ایک یہ کہ داغ بیان جوازکے لیے ہے اور ممانعت بیان کراہت کے لیے یعنی داغ سے علاج کرنا،جائز ہے ،مگر بہتر نہیں۔دوسرے یہ کہ جب دوسرے علاج ہوسکتے ہوں ،تو داغ نہ لگاؤ اگر اس کے سواء اورکوئی علاج نہ ہو تو لگاؤ۔تیسرے یہ کہ اہلِ عرب داغ کو آخری یقینی علاج سمجھتے تھے ،ان کی نظر رب تعالی سے ہٹ کر داغ پر اڑگئی،توکل علی اللہ جاتا رہا تھا ، تعلیم توکل کے لیے ممانعت فرمائی گئی،اگر اللہ پرتوکل ہو، داغ کو محض دواء سمجھے ،تو جائز ہے۔چوتھے یہ کہ جہاں داغ لگانا خطرناک ہو وہاں ممنوع ہے ،غیر خطرہ کی صورت میں جائز۔’’ کیّ‘‘ کے معنی ہیں داغ،عرب میں لوہا گرم کرکے زخم پر لگادیتے ہیں اسے ’’ کیّ‘‘  کہا جاتا ہے۔(مراۃ المناجیح ، جلد6، صفحہ215،مطبوعہ ضاءالقرآن )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم