Toote Hue Bartan Mein Khana Peena Kaisa ?

ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا کیسا ؟

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2253

تاریخ اجراء: 24جمادی الاول1445 ھ/09دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ٹوٹے ہوئے پیالے میں چائے وغیرہ پینا کیسا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ٹوٹے ہوئے اور دراڑوالے برتن میں  کھانا پینا جائز ہے،البتہ ٹوٹی ہوئی اور دراڑ والی جگہ سے مکروہ تنزیہی ہے ، احادیث  میں برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے سےمنع فرمایا  اور شارحین نے اس کی وجوہات یہ بیان فرمائیں کہ ٹوٹے ہوئے برتن میں پینے کی  صورت میں پانی  کے کپڑوں یا بدن پر  گرنے ،اس جگہ سے لگ کر ہونٹ  کے زخمی ہونے ،یا دراڑ  ہونے کی وجہ سے  برتن کی صفا ئی مکمل طور پر نہ ہونے کی وجہ سے اس کے مضر صحت ہونے کا اندیشہ ہے،اس کے پیش نظر ٹوٹے برتن میں کھانے پینے سے بچا جائے۔

   مشکوۃ المصابیح میں ہے :”عن ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ نھی رسول اللہ علیہ الصلوۃو السلام عن الشرب من ثلمۃ  القدح“یعنی :حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  علیہ الصلوۃ و السلام نے برتن کے ٹوٹے ہوئے حصے سے پینے سے منع فرمایا۔(مشکوۃ المصابیح، رقم حدیث4280،ج 2،ص 1233، المکتب الاسلامی،بیروت)

   مذکورہ نہی کے نہی ارشادی ہونے کے متعلق شرح معانی الآثار میں  اس  حدیث کے تحت ہے:”فلم یکن ھذا النھی من رسول اللہ علیہ الصلوۃوالسلام علی تحریم ذلک،حتی یکون فاعلہ عاصیاًبل علی طریق الاشفاق منہ علی امتہ والرآفۃ بھم،والنظر لھم“یعنی تو حضور علیہ الصلوۃ و السلام کا منع کرنا اسے حرام قرار دینے کی وجہ سے نہیں  ہے  کہ اس کا کرنےوالا گناہگار قرار پائے ،بلکہ حضور کا منع فرمانا تو اپنی امت پر شفقت ،محبت اور ان کی حفاظت کے لیے ہے۔(شرح معانی الآثار ملتقطاً،ج4،ص276،مکتبہ عالم الکتب)

   اس کی حکمتوں کے متعلق لمعات التنقیح میں ہے:” لانہ ینصب بہ الماء علی ثوبہ وبدنہ،وقیل لانہ لا ینالہ التنظیف التام عند غسل الاناء“یعنی:کیونکہ اس سے پینے کی صورت میں کپڑوں اور بدن میں پانی گرے گا،اور ایک وجہ یہ بیان کی گئی کہ کیونکہ مذکورہ صورت میں برتن کو دھونے کے باوجود  مکمل نظافت حاصل نہیں ہوگی ۔ (لمعات التنقیح،ج7، ص312، مکتبہ دار النوادر) 

   مرأۃ المناجیح میں اس کے تحت ہے” خواہ پیالہ کا کنارہ کچھ ٹوٹا ہوا ہو یا پیالہ کے وسط میں سوراخ ہو اس سے پانی وغیرہ مطلقًا منع ہے کہ یہ جگہ منہ سے اچھی طرح نہیں لگتی جس سے پانی وغیرہ بہ کر کپڑوں پر گرتا ہے کچھ منہ میں جاتا ہے کچھ کپڑے تر کرتا ہے،نیز یہ جگہ پھر اچھی طرح صاف بھی نہ ہوسکے گی اور ممکن ہے کہ ٹوٹا ہوا کنارہ ہونٹ کو زخمی کر دے اور زخم کا خون پانی اور برتن کو ناپاک کردے بہرحال اس حکم میں بھی بہت حکمتیں ہیں“۔(مرآۃ المناجیح،ج6، ص73،قادری پبلشرز)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم