Ullu Ke Gosht Ka Kya Hukum Hai ?

الو کے گوشت کا کیا حکم ہے ؟

مجیب: محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی  نمبر: WAT-1420

تاریخ  اجراء: 01شعبان المعظم1444 ھ/22فروری2023ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا الو کا گوشت حرام ہے؟اگر کسی نے کھا لیا ہو تو کیا کرے؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   اُلّو کھانا حرام ہے،کیونکہ یہ اُن  پرندوں میں سے ہے ،جو پنجوں سے شکار کرتے ہیں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے پرندے کھانے کو حرام قرار دیا ہے۔اگر کسی نے کھا لیا، تو وہ سچے دل سے توبہ کرے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم کرے۔

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سوال ہوا کہ الو حرام ہے یا نہیں؟ تو اس کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا:"الو حرام ہے۔"(فتاوی رضویہ،ج 20،ص 320،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   مزیدفتاوی رضویہ میں ہے”ہماری تمام کتب مذہب اور صحاح احادیث سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہم اجمعین میں صاف صریح حکم قطعی کل بلااستثناء وتخصیص موجود ہے کہ ہر پرنداپنے پنجہ سے شکار کرنے والے حرام ہے۔۔۔ غرض یہ قاعدہ کلیہ شرعیہ ہے جس پر ائمہ حنفیہ کا اجماع ہے، اور اس سے ہر گز کوئی پنچہ والا پرندہ کہ سباع طیر سے ہو مستثنٰی نہیں اور شک نہیں کہ الو پنچہ والا پرندہ ہے۔ بلکہ اس کے پنجے بہت شکاری پرندوں سے زیادہ قوی اور تیز ہیں، اور شک نہیں کہ گوشت اس کی خوراک ہے،ا ور شک نہیں کہ وہ اپنے سے کم طاقت پرندوں پر حملہ کرتاہے، یہ سب باتیں یقینا معلوم ہیں، اور فقیر کے سامنے بہت شکار پیشہ مسلمانوں نے بیان کیا کہ یہ پرندہ شکاری ہے۔۔۔غرض جب وہ شکاری جانور ہے تو اس کے حرام ہونے میں اصلا جائے کلام نہیں۔“ (فتاوی رضویہ،ج 20،ص 314،315،317،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم