Ye Jumla Kehne Ka Hukum Ke Wahan Na Adam Tha Na Adam Zad

یہ جملہ کہنے کا حکم کہ” وہاں نہ آدم تھا نہ آدم زاد“

مجیب:مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1683

تاریخ اجراء:23شوال المکرم1445 ھ/02مئی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   آج کل ایک جملہ بہت عام ہے کہ لوگ کسی ایسی جگہ جائیں جو ہمیشہ سنسان ہی رہتی ہو یا بھیڑ والی جگہ کبھی کسی موقع پر سنسان ہو جائے ،تو اس طرح کے موقع پر لوگ اس کے سنسان ہونے کو بیان کرنے کے لئے کہتے ہیں : ”وہاں  نہ آدم تھانہ آدم زاد “اس جملے کے متعلق حکمِ شرعی کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال میں ذکر کردہ جملہ (وہاں نہ آدم تھا، نہ آدم زاد)میں کوئی حرج نہیں ، کہ آدم  کا مطلب انسان ہے اور آدم زاد کا معنی بھی آدمی کا بچہ یا انسان ہی ہے یہ ایک اردو محاورہ ہے جس کا معنی اردو لغت میں ’’دور تک آبادی نہیں، بالکل غیر آباد ہے، غیر آباد علاقہ، ویران،سنسان ‘‘ کے ہیں ، اس میں حضرت آدم علیہ السلام مراد نہیں ہیں کہ بے ادبی کا معنی و قصد پایا جائے ۔

   فرہنگ آصفیہ میں آدم زاد کا معنی کچھ یوں لکھا ہے:’’آدم کی اولاد،انسان،آدمی کی قسم، آدمی کی صنف،آدمی کا بچہ،انسان کا بچہ۔۔۔ (فقرے) وہاں آدم نہ آدم زاد۔‘‘(فرہنگ آصفیہ،جلد01،صفحہ132،مطبوعہ لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم