پسند نہ آئی تو واپس کردیں گے، اس شرط پر خریدنا کیسا؟ |
مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی |
تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ذوالقعدۃالحرام1441ء |
دارالافتاء اہلسنت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جب کوئی چیز خریدتے ہیں تو بسا اوقات چیز پسند نہیں آرہی ہوتی یا خدشہ ہوتا ہے کہ گھر والوں کو پسند آئے گی یا نہیں اس لئے کہہ دیتے ہیں کہ اگر پسند نہیں آئی تو واپس کر دیں گے۔ اس بارے میں کیاحکم ہے ؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
عام طور پر جو سودے ہوتے ہیں اس میں خریدتے وقت سودافائنل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا پسند نہ آنے پر واپسی کا اختیار نہیں۔ البتہ جب سودا کرتے ہوئے آپ نے یہ شرط رکھ لی کہ اگر پسند نہ آیا توایک دو دن میں واپس کردوں گا تو یہ جائز ہے اسے فقہ کی اصطلاح میں خیارِ شرط کہتے ہیں اور اس میں زیادہ سے زیادہ تین دن تک کی شرط رکھی جاسکتی ہے اگر چیز پسند نہ آئی تو تین دن کے اندر اندر واپس کرنے کا اختیار ہوگا تین دن کی مدت پوری ہونے پر بیع لازم ہوجائے گی اور اب واپسی کا اختیار ختم ہوجائے گا۔ خرید و فروخت میں خیار رکھے جانے کا یہ انداز حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے چنانچہ بخاری شریف میں ہے : “ قال رجل للنبی صلَّی اللہ علیہ وسلَّم انی اخدع فی البیوع فقال اذا بایعت فقل لا خلابۃ فکان رجل یقولہ “ ترجمہ : ایک شخص نے نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کیا کہ میں خرید و فروخت میں دھوکا کھا جاتا ہوں۔ ارشاد فرمایا : جب خرید و فروخت کرو تو کہہ دیا کرو “ لا خلابۃ “ یعنی دھوکا نہ ہو۔ چنانچہ وہ صاحب یہ کہہ دیا کرتے تھے ۔ “ (بخاری ، 1 / 324) اس حدیث پاک کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرَّحمہ لکھتے ہیں:“ اس جملے کے بہت سے معانی کئے گئے ہیں اور ہر معنی کی بنا پر فقہاء کے مذاہب ہیں ، ہمارے ہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ تم کہہ دیا کرو کہ بھائی میں تجارتی کاروبار میں سادہ بندہ ہوں مجھ سے قیمت زیادہ نہ وصول کرلینا میں اپنے لیے اختیار رکھتا ہوں کسی کو دکھاؤں گا اگر قیمت زیادہ لگائی گئی تو مجھے خیارِ شرط ہے واپس کردوں گا۔ چنانچہ بعض روایات میں یوں ہے “لا خلابۃ ولی الخیار ثلٰثۃ ایام“ یعنی دھوکا نہ ہو اور مجھے تین دن تک اختیار ہے اس صورت میں حدیث بالکل واضح ہے۔ “ (مراٰۃ المناجیح ، 4 / 247) بہارِ شریعت میں ہے : “بائع و مشتری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قطعی طور پر بیع نہ کریں ۔ بلکہ عقد میں یہ شرط کردیں کہ اگر منظورنہ ہوا تو بیع باقی نہ رہے گی اسے خیارِ شرط کہتے ہیں اور اس کی ضرورت طرفین کو ہوا کرتی ہے کیونکہ کبھی بائع اپنی ناواقفی سے کم داموں میں چیز بیچ دیتا ہے یا مشتری اپنی نادانی سے زیادہ داموں سے خرید لیتا ہےیا چیز کی اسے شناخت نہیں ہے ضرورت ہے کہ دوسرے سے مشورہ کرکے صحیح رائے قائم کرے۔ “ (بہار شریعت ، 2 / 647) اسی میں ہے : “ خیار کی مدت زیادہ سے زیادہ تین دن ہے اس سے کم ہوسکتی ہے زیادہ نہیں۔ “ (بہار شریعت ، 2 / 649) |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
گاہک سوٹ سینے کے لئے د ے جائے لیکن واپس نہ آئے تو درزی کیا کر ے؟
موبائل کمپنی سے ایڈوانس بیلنس حاصل کرنا کیسا؟
سودے میں قیمت طے کرنے کی اہمیت
جانداروں کی شکل والے کھلونوں کی خرید و فروخت
تصاویر والی اشیاء کی خرید و فروخت کا حکم
درزی کے پاس بچے ہوئے کپڑے کے بارے میں حکم
شرکتِ عمل میں کیا برابر کا وقت دینا ضروری ہے؟
کرایہ پر لی ہوئی چیز آگے کرایہ پردینا کیسا؟