وقت پر پیمنٹ نہ کرنے پر اضافی رقم لینا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ذوالقعدۃالحرام1441ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی دکاندار سے کھاد وغیرہ چھ ماہ کی ادھار پر لیتا ہے مگر چھ ماہ میں نہیں دے پاتا بلکہ سال دو سال گزر جاتے ہیں تو کیا جس وقت وہ پیسے دے گا وہ اتنے ہی دے گا یا زیادہ بھی لےسکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جتنے کا سودا ہوا اتنے ہی پیسے لئے جائیں گے اس سے زیادہ نہیں لے سکتے۔ کیونکہ رقم اس نے مال کے عوض دینی ہے اور مال میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اس نےقیمت ادا کرنے میں جو تاخیر کی ہے اس تاخیر کی بناء پر اضافی رقم وصول نہیں کرسکتے ، اگر کریں گے تو وہ سود ہوگا۔

    ہاں اگر دینے والے نے بلاوجہ تاخیر کی ہے تو وہ گناہگار ہوگا۔

    لیکن اگر تنگدست ہے کہ ادائیگی پر قادر نہیں نہ ہی کوئی ایسا مال ہے جسے بیچ کر ادا کرسکے تو گناہ نہیں بلکہ جہاں ادائیگی کے کوئی اسباب نہ ہوں تو وہاں تنگدست کو مہلت دینی چاہئے ، یہی قرآن کی تعلیمات ہیں۔

    چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :  وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍؕ-وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۸۰) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : اور اگر قرضدار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک اور قرض اس پر بالکل چھوڑ دینا تمہارے لئے اور بھلاہے اگر جانو۔

 (پ3 ، البقرۃ : 280)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم