ایک ہی چیز مختلف کسٹمرز کو مختلف قیمت پر بیچنا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ محرم الحرام 1442ھ

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ دوکاندار اپنا سامان فروخت کرتے ہیں تو ہر کسٹمر کے لئے ان کا الگ الگ ریٹ ہوتاہے ، کسی کسٹمر سے  دس بیس  روپے زیادہ لیتےہیں اور دوسرے کسٹمر کو وہی چیز  سستی بیچ دیتے ہیں ، گاہک جھگڑتا ہے تو اس کو اور سستا کر دیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا  شرعی اعتبارسے  جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    بیچنے والا اپنی چیز کا مالک ہے وہ جتنے کی چاہے بیچ سکتا ہے جبکہ خریدار کو دھوکا نہ دیا جائے۔ البتہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے ریٹ حکومت کی طرف سے مقرر ہوتے ہیں ، ان چیزوں کو ان کے مقرر کردہ ریٹ پر ہی بیچنا ضروری ہے کیونکہ قانون کی پاسداری کرنا لازم ہے لیکن بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن میں یہ قانون  نہیں ہوتا ، جیسے کپڑے ، فرنیچر  وغیرہ جن کے ریٹ مقرر نہیں ہوتے تو ان چیزوں میں یہ کاروباری ٹول استعمال ہوتا ہے کہ “ جیسا گاہک ویسا بھاؤ۔ “ اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔ نیز بارگیننگ کرنا بھی خریدار و دکاندار کاحق ہے نبیِّ اکرم    صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   سے بھاؤ کم کروانا ثابت ہے اگر بھاؤکم  ہی نہ ہوسکتاتونبیِّ اکرم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   سے ثابت کیسےہوتا۔

    حدیثِ پاک میں ہے : “حضرت سوید ابنِ قیس   رضی اللہ عنہ   فرماتے ہیں کہ میں اور مخرفہ عبدی مقام ہجر سے کپڑا لائے ہم اسے مکۂ معظمہ میں لائے تو ہمارے پاس رسول اللہ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پاپیادہ چلتے ہوئے تشریف لائے تو ہم سے پاجامہ کا بھاؤ چکایا۔ ہم نے وہ آپ کے ہاتھ بیچ دیا وہاں ایک شخص تھا جو مزدوری پر تول رہا تھا۔ اس سے رسول اﷲ   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا تول دو اور نیچا تو لو۔

(ترمذی ، 52 / 3 ، حدیث : 1309)

    مفتی احمد یار خان نعیمی   علیہ الرحمہ   اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:“بھاؤ چکانے کا مطلب یہ ہے کہ بھاؤ طے کرکے خرید لیا۔ (مرقات)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خود دوکان پر جانا اور تاجر کی منہ مانگی قیمت نہ دینا بلکہ اس سے طے کرنا کچھ کم کرانا سنّت ہے ، اگرچہ اپنے خدام سے ہی خرید کی جائے اس بھاؤ تاؤ کرنے میں عار نہیں۔

    آپ   علیہ الرحمہ   مزید لکھتے ہیں:“چونکہ اس زمانہ میں نوٹ تو تھے نہیں درہم کا عام رواج تھا جن کے گننے میں بہت وقت لگتا ہے اس لئے تول کر ادا کئے جاتے تھے ، درہم تولنے والا تاجر کی طرف سے مقرر ہوتا تھا جس کی اجرت(تولائی)خریدار کے ذمہ ہوتی تھی۔ “

(مراٰۃ المناجیح ، 4 / 524)

    اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت   علیہ الرحمہ   لکھتے ہیں:“بھاؤ کے لئے حجت کرنا بہتر ہے بلکہ سنّت۔ سوا اس چیز کے جو سفرِ حج کے لئے خریدی جائے اس میں بہتر یہ ہے کہ جو مانگے دے دے۔ “

(فتاویٰ رضویہ ، 17 / 128)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم